ہندوستان سے جنگیں


پاکستان میں تاریخ کی تدریسی کتابوں میں سب سے نمایاں جھوٹ ایسے ایونٹس کے بارے میں جو تاحال ہماری یادوں میں زندہ ہیں، اس کی متعدد مثالیں ہیں، جن میں سے نیچے دی جارہی ہیں جو 1965 اور 1971 کی جنگوں سمیت 1947 میں برصغیر کی تقسیم کے موقع پر ہونے والی خونریزی کے بارے میں ہے۔
اس جھوٹ کی وجہ قوم پرستی کے بارے میں ہمارے مسخ تصورتات ہیں، بچوں کو ہماری تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع فراہم کرنے کی بجائے ہم انہیں غلط تصویر دکھاتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہم نسل درنسل وہی غلطیاں دہرائے چلے جارہے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بارے میں ایک اقتباس خیبرپختونخوا کے ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے 2002 میں شائع کی گئی پانچویں جماعت کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے" پاکستانی فوج نے ہندوستان کے متعدد علاقوں کو فتح کرلیا اور پھر ہندوستان خود کو شکست کے دہانے پر دیکھ کر اقوام متحدہ کی جانب بھاگ کر جنگ بندی کی اپیلیں کرنے لگا، اس کے بعد پاکستان عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے فتح کردہ علاقوں سے واپس لوٹ آیا"۔
پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر 1993 میں سیکنڈری کلاسز کے لیے یہ مضمون شامل کیا تھا" مشرقی پاکستان میں ہندو بڑی تعداد میں مقیم تھے، انہوں نے کبھی پاکستان کو دل سے تقسیم نہیں کیا، ان کی بڑی تعداد اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کا کام کررہی تھی"۔
اس طرح وہ طالبعلموں میں ایک منفی تاثر تخلیق کررہے ہیں، ان کی نظر میں نوجوان نسل کے لیے تصور پاکستان کی وضاحت کی کوئی اہمیت نہیں۔
کتاب میں مزید کہا گیا ہے" ہندو اپنی آمدنیوں کا بڑا حصہ ہندوستان بھیج رہے تھے جس سے صوبے کی معیشت بڑی طرح متاثر ہوئی، کچھ سیاسی رہنماﺅں نے ذاتی مفادات کے لیے صوبائیت کی حوصلہ افزائی کی، وہ مرکزی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور مغربی پاکستان کو دشمن اور استحصال کرنے والا قرار دینے لگے، سیاسی عزائم کے حصول کے لیے قومی اتحاد کو داﺅ پر لگا دیا گیا"۔
انٹرمیڈیٹ کے طالبعلموں کے لیے سوکس آف پاکستان کی 2000 کی کتاب میں یہ خط بھی شامل ہے" اگرچہ مسلمانوں کی جانب سے تقسیم کے موقع پر غیرمسلموں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کی گئی، تاہم ہندوستانی عوام نے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کی، انہوں نے مسلم مہاجرین کو لیکر جانے والی ٹرینوں، بسوں اور ٹرکوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کیا ور لوٹ مار کی"۔
ایم ڈی ظفر کی پاکستان اسٹیڈیز میں دی گئی کچھ مثالیں مکمل طور پر حقائق کے برخلاف ہیں، جیسے " پاکستان کا قیام اسی وقت عمل میں آگیا تھا جب عربوں نے محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ اور ملتان کو فتح کرلیا، عرب حکمرانوں کے زیرتحت زیریں وادی سندھ میں پاکستان قائم ہوگیا تھا۔
اسی طرح" گیارہویں صدی کے دوران غزنول سلطنت ان علاقوں پر مشتمل تھی جو آج پاکستان اور افغانستان کا حصہ ہیں، بارہویں صدی میں غزنوی حکمران افغانستان سے محروم ہوگئے اور ان کا اقتدار پاکستان تک محدود ہوگیا"۔
ایک اور جگہ ذکر ہے" تیرہویں صدی میں پاکستان پورے شمالی ہندوستان اور بنگال تک پھیل گیا، خلجی عہد حکومت کے دوران پاکستان جنوب کی جانب بڑھا اور وسطی ہندوستان اور دکن تک پھیل گیا"۔
کتاب کے مطابق" سولہویں صدی میں ہندوستان مکمل طور پر پاکستان میں جذب ہوگیا"۔
اسی طرح" شاہ ولی اللہ نے افغانستان اور پاکستان کے بادشاہ نادر شاہ درانی سے مغل ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اپیل کی تاکہ انہیں مراٹھا جنگجوﺅں سے بچایا جاسکے"۔
ایک اور جگہ لکھا ہے" پاکستانی خطے میں جہاں ایک سیکھ ریاست قائم ہوگئی تھی، وہاں مسلمانوں کو مذہب کی آزادی دینے سے انکار کردیا گیا تھا"۔
کتاب میں مزید لکھا ہے"اگرچہ پاکستان کا قیام اگست 1947 میں عمل میں آیا، تاہم اس کی بنیاد انیسویں صدی کے وسط میں ہی برطانوی راج کے آغاز کے موقع پر پڑچکی تھی، اس وقت نام تو مختلف تھا مگر موجودہ عہد کا پاکستان اس وقت موجود تھا"۔
قومی ذہن کی تشکیل نصابِ تعلیم کے ذریعے سے کی جاتی ہے اور نصاب تعلیم کے ذریعے قوم پرستی اور وطن پرستی کا سبق بچپن سے ہی ذہن نشین کرایا جاتا ہے۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد بالخصوص عالمی سطح پر قومیت کے تصور کو فروغ دیا گیا اور اسی تصور کے تحت ہر قوم نے اپنے اپنے وطن میں قومی ہیروز بنائے۔ اسی تصور کے تحت قومی پرچم بنایا گیا، قومی ترانہ لکھا گیا، قومی لباس، قومی پھول، قومی کھیل، قومی زبان، قومی ثقافت، غرضیکہ ہر چیز کے ساتھ قوم لگا کر انہیں مقدس بنا دیا گیا۔
مقدس ہونے کا یہ تصور پاکستان میں بھی کسی حد تک نصابِ تعلیم میں نظر آتا ہے۔ علمی زبان میں اسے نیشنل ازم کہتے ہیں لیکن ہمارے ملک میں نیشنل ازم کے بھی بے شمار تصورات موجود ہیں۔ جیسے مذہب کے فرقے ہیں، ویسے ہی نیشنل ازم کی تعریف کی بنیاد پر قومیتوں کا وجود ہے۔
پاکستان کے ہر صوبے میں نیشنل ازم کی اپنی اپنی تعریف ہے اور اس نیشنل ازم کے تصور نے لسانیت کو فروغ دیا ہے جب کہ تاریخ، معاشرتی علوم اور مطالعہ پاکستان کی کتابوں میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے، اس میں مبالغہ آرائی سے کام لیا جارہا ہے۔ پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھائی جانے والی نصابی کتب میں تاریخِ پاکستان کو مسلم لیگ سے ہی جوڑا جاتا ہے، اور اس کے ارد گرد جو کچھ ہوا وہ ہمارے بچوں کو معلوم ہی نہیں ہوتا۔
نصاب میں پڑھایا جاتا ہے کہ تاریخِ پاکستان کا آغاز محمد بن قاسم سے ہوتا ہے۔ پھر اس کے بعد درمیان کے ہزار سال نکال کر اس خطے کی تاریخ کا آغاز سر سید احمد خان سے شروع کر دیا جاتا ہے۔ اس ہزار سال کے دوران کیا ہوا کس نے حکومت کی اور پھر کس طرح سے مسلمان زوال پذیر ہوئے اس حقیقت کو چھپایا جاتا ہے۔ اس خطے میں جو جنگِ پلاسی ہوئی، جنگِ پانی پت ہوئی، جنگِ آزادی ہوئی، 1930ء کے قحط بنگال کے باعث لاکھوں افراد کے موت کی آغوش میں جانے کا ذمہ دار کون تھا، یہ حقائق نہیں پڑھائے جاتے۔
ہمارے طلباء کو یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ 1857ء میں لڑی جانے والی جنگِ آزادی میں دشمن کون تھا اور اس جنگ میں پچاس ہزار علماء کرام کو کیوں قتل کیا گیا تھا۔ تاریخ کی نصابی کتب میں میڑک تک جو کچھ پڑھایا جاتا ہے اس میں یا تو حقائق چھپائے گئے ہیں یا پھر حقائق کو سرکاری سطح پر اپنی مرضی کے مطابق ترتیب دیا جاتا ہے۔ تاجِ برطانیہ یا پھر انگریزوں کے خلاف چلائی جانے والی تحریکیں ہمیں پڑھائی نہیں جاتیں، یہ تضاد کیوں ہے؟
مزید پڑھیے: خفیہ نصاب
نوے سالہ انگریز حکومت کے دوران جو کچھ اس خطے کی معیشت کے ساتھ کیا گیا وہ کیوں نصابی کتابوں میں شامل نہیں؟ مسلمانوں پر سرکاری نوکریاں کس نے اور کیوں بند کی تھیں؟ نصابی کتب میں ہمیں کیوں نہیں بتایا جاتا کہ لاہور میں کس کی صدارت میں برصغیر پاک و ہند کا پہلا مشاعرہ ہوا تھا جس میں انگریزوں کو خراج تحسین پیش کر کے انہیں باعث رحمت قرار دیا گیا تھا۔
جس ادھوری تاریخ کے انجکشن ہمارے بچوں کو نصابی کتب کے ذریعے سے لگائے جارہے ہیں، اس سے نوجوان نسل کے ذہن بیمار ہورہے ہیں۔ جو نوجوان اس خطے کی تاریخ پر مبنی کتابیں پڑھتا ہے تو اس پر حقیقت کچھ اور عیاں ہوتی ہے، جبکہ اسے پڑھایا کچھ اور گیا ہوتا ہے۔ پاکستان بننے کے بعد کی تاریخ کو بھی درست انداز میں نصابی کتب کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
ہمیں یہ نہیں بتایا جاتا کہ لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون تھا؟ قائد اعظم محمد علی جناح کی گیارہ اگست کی پوری تقریر کو نصاب کا حصہ نہیں بنایا جاتا۔ ہمیں یہ بھی نہیں بتایا جاتا کہ 1956ء تک آئین پاکستان بنانے میں کون رکاوٹ تھا، یا پھر یہ کہ مشرقی پاکستان الگ ہو کر بنگلہ دیش کیوں بنا؟ کون کون پاکستان کی سیاسی تاریخ میں پیسوں کے عوض بِکتا رہا اور کون کون غداری کرتا رہا، یہ سب نصابی کتب سے کیوں چھپایا گیا ہے؟
حب الوطنی کا جذبہ نصابی کتب کے ذریعے سے پروان چڑھتا ہے لیکن نوجوان نسل میں اس جذبے کا عالم یہ ہے کہ وہ بہتر مستقبل کے لیے پاکستان سے فرار ہونا چاہتی ہے۔ نصابی کتب میں قیام پاکستان سے پہلے کی بھی ادھوری تاریخ پڑھائی جاتی ہے، جو جھوٹ پر مبنی ہے اور قیام پاکستان کے بعد بھی جھوٹ کا سہارا لیا گیا ہے۔ معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے 'نصاب اور تاریخ' جبکہ کے کے عزیز نے اپنی کتاب 'مرڈر آف ہسٹری' میں اس قسم کی جھوٹی تاریخ کے بے شمار حوالے درج کیے ہیں۔
عزت مآب جناب وزیر اعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف نے نصابی کتب کو از سر نو لکھنے کا حکم دیا ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کو ہدایت کی ہے کہ تاریخ، مطالعہ پاکستان اور معاشرتی علوم کی کتابوں کو تبدیل کیا جائے۔ اب اس حکم کے پیچھے کون سی منطق ہے، اس پر فی الحال کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ چنانچہ اس کے لیے ہمیں نئی چھپنے والی کتابوں کا انتظار کرنا ہوگا۔ ان کتابوں کو صوبے اپنے اپنے بورڈز کے ذریعے سے قانونی طور پر نافذ کرنے کے پابند ہیں یا نہیں، اس کی پیچیدگیاں بعد میں سامنے آئیں گی۔
نصاب تعلیم میں پہلے ہی بے شمار تضادات موجود ہیں اور اب نصاب تعلیم میں صوبائیت کا عنصر غالب آنے کا بھی خطرہ ہے۔ اٹھارہویں ترمیم کے بعد اب ہر صوبے نے اپنا اپنا نصاب تعلیم مرتب کرنا ہے۔ کون چیک کرے گا کہ یہ نصاب تعلیم دیگر صوبوں سے متضاد نہیں؟
میرا خیال یہ ہے کہ ہر صوبے میں الگ نصابِ تعلیم کے بجائے ایک ہی نصاب بنایا جائے، تاکہ ملک کے تمام حصوں میں رہنے والے طلبا کی ذہنی نشونما اور معلومات ایک جیسی ہوں۔ اس سے اس بات کو یقینی بنایا جاسکے گا کہ ایک دور دراز علاقے کے بچے کو بھی وہی معلومات حاصل ہوں، جو کسی بڑے شہر میں رہنے والے بچے کو۔ اس کا لازمی فائدہ یہ ہوگا کہ دونوں بچے آپس میں مقابلہ کرسکیں گے جو کہ مختلف نصابوں کی وجہ سے ممکن نہیں۔ اعلیٰ تعلیمی حکام کو اس معاملے پر ضرور سوچنا چاہیے۔

پاکستان میں قوم پرستی اور حب الوطنی متنازعہ فیہ موضوعات ہیں، یہ ہم پاکستانیوں کو کیا بناتے ہیں، اور اس سے کیسے ہم اپنی سرزمین اور قوم سے محبت کرتے ہیں؟


ان سوالات کے جوابات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں، ہماری قوم شناخت کا بڑا حصہ ہمارے تاریخی احساس اور ثقافت پر مشتمل ہے جبکہ خطے کی قدیم تہذیبوں کے ترکے کی جڑیں بھی کافی گہری ہیں، اسی طرح مذہب کا بھی اہم کردار ہے، مگر ہمارے نصاب میں شامل تاریخ کی کتابوں میں ہماری شناخت کے متعدد پہلوﺅں کا ذکر ہی موجود نہیں۔
نصاب میں یہ بتانے کی بجائے ہم کون ہیں، کی بجائے تاریخی حقائق میں ردوبدل کرکے ہمارے اپنی شناخت کے احساس کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا گیا ہے، اور ان کتابوں میں سب سے بڑا دھوکہ ان واقعات کے بارے میں جو ابھی تک ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔
ہیرالڈ نے اس معاملے پر ایسے مصنفین اور ماہرین کو دعوت دی جو تاریخ پر عبور رکھتے ہیں تاکہ وہ ان سوالات پر اپنے جوابات کو شیئر کرسکیں جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی تاریخی نصابی کتب میں انہیں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔

ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی تقسیم


پاکستانی تعلیمی کتب میں جو چیز سب سے بڑا جھوٹ سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی واحد وجہ ہی ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی اختلافات تھے، یہ تصور اس خیال پر مبنی ہے کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں تہذیبی طور پر منقسم ہے، جو کہ بالکل بھی ٹھیک نہیں۔
مذہب پر زور دینے کی وجہ سے دیگر عناصر کو نظرانداز کردیا گیا جو کہ دونوں شناختوں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہیں، مثال کے طور پر جنوبی ہندوستان کے بیشتر مسلمان شمالی علاقوں کی مسلم برادری کے مقابلے میں ہندوﺅں کے کافی قریب لگتے ہیں جس کی وجہ اس خطے کی خاص ثقافت اور زبانیں ہیں۔
اسی طرح ہندو اور مسلم ادوار کی تقسیم کے تاریخ میں ذکر کے حوالے سے اہم حقیقت یہ ہے کہ یہ برطانوی دور میں سامنے آیا، جس میں مسلم بادشاہتوں کو زیادہ نمایاں کیا گیا جو اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے، یعنی بابر نے ابراہیم لوڈھی کو شکست دی اور دہلی سلطنت کا خاتمہ کرکے مغل عہد کا آغاز کیا۔
یہ نصابی کتب دیکھنے میں ایسی تصاویر لگتی ہیں جس مین دونوں مذہبی برادریوں نے ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس اس کی مثال 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس حکومت کے قیام کی دی جاسکتی ہے۔
دیگر عناصر جو جنوبی ایشیاءکی تاریخ میں تاریخی طور پر مذہبی منافرت کا اظہار کا سبب بنے انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے، درحقیقت رچرڈ ایٹن کی ایک مندروں کے بارے میں ایک تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ لگ بھگ ایسے تمام واقعات جن میں ہندو مندروں کو لوٹا گیا، وہ واقعات سیاسی یا اقتصادی وجوہات کی بناءپر پیش آئے۔
بیشتر واقعات کی وجہ یہ تھی کہ مسلم حکمران باغی ہندو حکام کو سزا دینا چاہتے تھے، ورنہ مغل عہد میں تو مندروں کو تحفظ فراہم کیا گیا، اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو بین المذاہب تعاون کا مقصد سیاسی کنٹرول کو برقرار رکھنا تھا جس کی ایک مثال یونینسٹ پارٹی کی بھی دی جاسکتی ہے جو 1946 تک کسی نہ کسی شکل میں پنجاب میں حکمران رہی۔
پاکستان کے قیام کے بعد یہ تصور سامنے آیا کہ اس نئے ملک کی تشکیل ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان طویل اور بنیادی اختلافات کی بناءپر عمل میں آئی۔
— تحریر انوشے ملک: انوشے نے لندن یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی میں ڈگری لی ہے اور وہ اس وقت لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔

رہنماﺅں کی قصیدہ خوانی


مقدمہ ابن خلدون کے دیباچے میں ان سات غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تاریخ دان اکثر کرتے ہیں، ان میں سے ایک"اعلیٰ حکام کی حمایت حاصل کرنے کی عام خواہش ہوتی ہے، اس مقصد کے لیے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور انہیں مشہور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے"۔
یہ غلطی یا جھوٹ پاکستان کی نصابی کتب کو 1950 کی دہائی سے اپنا شکار بنا رہا ہے اور اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گزشتہ حکمرانوں چاہے سویلین ہو یا فوجی، کی قصیدہ خوانی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بیوقوفی مختلف فریقین کو غائب کرنا ہے، یعنی ہندوستان اور کانگریس کو غیرضروری طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور قوم پرستی کی سوچ کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کا یکطرفہ تصور پیش کیا جاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد سے سکولوں کے طالبعلموں کے لیے تاریخی کتب میں یہ خلاءمووجد ہے اور ان حیرت انگیز طور پر تاریخی حقائق کو موڑ تروڑ کر پیش کرنے کی منظوری وفاقی اور صوبائی ٹیکسٹ بورڈز کی جانب سے دی جاتی ہے۔
مزید یہ کہ ' دشمن' کے خلاف اپنی دشمنی کا اظہار سرکاری تاریخی کتب میں کھلم کھلا اور غیرضروری طور پر بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے ایسا ہی سرحد کی دوسری جانب ہندوستانی اسکولوں میں بھی ہوتا ہے۔
بیشتر ریاستیں انیس ویں اور بیس ویں صدی میں تاریخ کے سرکاری ورژن کو استعمال کرتی تھیں تاکہ قوم پرستانہ اور یکساں شناخت کو قائم کیا جاسکے، پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم فضل الرحمان نے 1948 میں ہسٹوریکل سوسائٹی آف پاکستان کو قائم کای تھا، تاکہ نئی قوم کی تاریخ کو منصفانہ اور متوازن انداز میں لکھ کر اسے مستند اور قابل اعتبار ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
گزشتہ حکومتوں نے اس مقصد پر توجہ نہیں دی اور پاکستانی اسکولوں میں تاریخ پر لکھنا ٹیکسٹ بک بورڈز کا ہدف بن گیا جس میں مصنفین کے غیراخلاقی اور غیرعالمانہ کاموں کی توثیق کی جاتی جنھیں سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
ذاتی مفاد کے حصول کا یہ طریقہ 2004 کی اوپن ڈور پالیسی کے باوجود ختم نہیں ہوسکا، جس کے تحت نجی پبلشرز کو معیاری درسی کتب کی اشاعت کا موقع فراہم کیا گیا۔
— تحریر عصمت ریاض: عصمت تعلیمی مشیر اور ایک درسی کتاب انڈراسٹینڈنگ ہسٹری کی مصنفہ ہیں۔


؛پښتونخوا کنسټریشن کیمپ؛/ شاهین بونیری


خو آیا په تشه ویره به کار وشي؟
د مشال همکار شاهین بونیري لیکنه“پښتونخوا کنسټریشن کیمپ”ما ویل زه به د شپږ کلن شاه زیب اپریدي قیصه لیکم … او هغه شاه زیب چې څو ورځې وړاندې د جمرود په بازار کې سره د خپل مورپلار اووژل شو … او هغه شاه زیب د چا په سترګو کې چې د ژوند خوبونه له مرګه پس هم غړیدل … او هغه شاه زیب چې د ریاستونو تر مینځ د ستراتیجیکي ګټو لپاره په جوړه شوي قتل ګاه کې قتل شو، تیر شو او هیر شو.
خو کومه کومه قیصه به کوو؟ له ټکره راواخله ، تر بابړې ، له پیښوره تر کابله ، له چتراله تر کویټې او قندهاره ، له سواته تر وزیرستانه، له پیښور د سکوله تر باچاخان پوهنتونه دا ټوله سیمه یو لوې ؛کنسنټریشن کیمپ؛
دی، دلته هره شیبه قیامت او هره ساه یوه لویه المیه ده.
وخته دلته چې قدم ږدې نو په خیال ږده
ددې خاؤرې کاڼي بوټي شهیدان دي
زه په پاکستان کې په دې اته شپیته کاله نه چا ښه مسلمان او منلم او نه ښه پاکستانې. زه څوک یم!
ما د اسلام په نوم وچت شوي هر بیرغ ته سلام کړیدې او تش سلام مې نه دې کړې قرباني مې هم ورکړیده خونن چې په جرګو، حجرو، تعلیمي ادارو، ښارونو، کلیو، جماتونو او د لوبو په میدانونو کې زه هم د اسلام په نوم وژل کیږم نو زه ددې خپل اسلام پوښتنه د چا نه وکړم؟
د چا اسلام اومنم؟
زه د پاکستان لپاره د خپل ورور په مرۍ غلې شوې یم، ما د خپل حق لپاره خبره هم نه ده کړې خو د پاکستان لپاره ما هر وخت دوینو نذرانې ورکړي دي ، زما خپل کور لوټ شوې دی خو ما بیا هم د ریاست پاکستان د بادارانو د کورونو حفاظت کړیدې.
خو هم د هغه پاکستان په قامي میډیا او ریاستي بیانیه کې زه بیوقوف او غدار پټهان یم.
زه کوم هیواد ته خپل هیواد اووایم؟
کومې خاورې ته خپله خاوره اووایم؟
زه خو په دې وطن کې په ژوندوني مړې یم …
په باچاخان پوهنتون برید یوازې په یوه تعلیمي اداره برید نه دی ، د پښتنو په تاریخي سیاسي مبارزه برید دی ، د هغوي په روښانه سباؤن برید دی، د هغوي په فکر او فلسفه برید دی او د هغوي په عزت برید دی.
د ریاست ذمه واري خو د خپلو وګړو د ځان، مال او عزت حفاظت وي .. او کله چې ریاست ددغه لوړو انساني قدرونو په خوندي کولو کې یوځل نه زر ځله پاتې راشي نو باید د ریاست غړي دې په خپل ځان ویریږي.
Posted by Mashaal Radio on Saturday, 23 January 2016

د سولې خبرې! د پاکستان کردار په افغان سوله کې داسې دی لکه په لاندې تصویر کې د پیشو مرسته له موږګ سره. بې باوري!

Posted by Faiz Zaland on Wednesday, 13 January 2016


 ګوره ډوبیدونکی لمر به تور ماښام ته څه وايي؟
دا له زرو جوړ باچا زنګي غلام ته څه وايي؟
زمونږ شهید په جګو سترګو سرې پانسی ته وخندل
ګوره د تاریخ قاضي به دې فرجام ته څه وايي؟
تږی و، عاشق و، بې پروایې په سر واړول
وپوښتی سقراط چې دې د زهرو جام ته وايي؟
زموږ کابل په سپینه ورځ یو سور حمام د وینو شو
اوس سپینې کوترې دې خوني حمام ته څه وايي؟
نن یې له ډولۍ نه تکه توره ناوې کوزه شوه
اوس بې دا د حورو زومان ټول اسلام ته څه وايي؟
بیایې د حرم مارغه ته ږیره لومه، لومه کړه
ګوره د مکې صیادان دغه دام ته څه وايي؟
وينو د نجيب د شپې په تورو څڼو وشيندل
عطر د منصور خدايه لا دې مقام ته څه وايي؟
تور پنجاب يې راووست د کابل پر زړه یې کښېناوه
اوس به دې جومات حرامي دې انجام ته څه وايي ؟

                      خانه ات را باد برد



خانه ات را باد برد

تو هنوزم نگرانِ وزشِ باد، در موي مني !؟

مسخِ افيونيِ افسانه ي اصحابِ كدامين غاري ؟

در كدامين خوابي ؟

خواب در چشمِ تو ويرانيِ صد طايفه است
تشتِ رسواييِ دزدانِ امارت افتاد
تو نگهدار ، هنوزم دو سرِ شالِ مرا
...
پشتِ اين پرده ي پوسيده ، تو در خوابي و من
با همين زلفكِ ممنوعه ي خود
نردباني به بلنداي سحر ميبافم
تا برآرم خورشيد
و تو در خوابي و آب
از سرت مي گذرد
...
و نديدي هرگز
توي جنگل ، كاج را
شب به شب ، جاي سپيدار زدند
و نبودند پلنگان، وقتي
كه دماوندِ اساطيري را
از كمر، دار زدند
و به هر دانه برنجي كه به رنج
بر سرِ سفره ي ما آمده بود
توي شاليزاران
آهن و آجر و ديوار زدند
...
و تو در خوابي و آب
تشنه ي هامون شد
خونِ زاينده بريد
و نفس هاي شبِ شرجيِ هور
زير گِل ، مدفون شد
...
خانه ات را باد برد
تشتِ رسوايي و غارت افتاد
تو نگهدار به چنگت ، شبِ گيسوي مرا
تا مبادا شبِ قحطي زده ي سفره ي ما
مشتِ خالي ترا باز كند
تا مبادا كه ببينند همه خوي ترا


موي مرا


من حجابم

نه حجابِ تنِ آزاده ي خود

من حجابِ تنِ يغما زده و خوابِ توام

پشتِ اين پرده ي پوسيده تو در خوابي و من

با همين زلفكِ ممنوعه ي خود

نردباني به بلنداي سحر ميبافم

تا برآرم خورشيد


                        The Wind Blew Your House Away
The wind blew away your house
And, you still worry about the wind blowing in my hair?!
The myth of which cave’s sleepers has you intoxicated so? 
Why are you sleeping?
A hundred tribes go to ruins while you sleep
The scandal about the kingdom’s thieves is everywhere
But, with your two hands, you still hold on to the two ends of my shawl
You are asleep behind this worn out curtain, and I,
with this same ‘forbidden’ hair of mine
will weave a ladder as tall as the sunrise
to bring out the sun
And you are asleep and water passes over you
And you never saw
how in the forest, pine trees were cut down, night after night,
in place of poplar trees
And there were no tigers when
mythological Damavand Mountain
was hanged from the loin
And for every grain of rice that had come to our table through hard labor,
in the rice paddies,
they planted iron, bricks, and walls
And you are sleeping,
and water thirsted for Hamoon Lake,
blood of Zayandeh River clotted,
and the breath of Hoor Wetlands’ humid nights
were buried under mud
The wind blew away your house 
The scandal about the lootings has broken out
With your claws, you grab on to my night’s hair
Lest the famine-stricken nights of our dinner spread
reveals the emptiness of your fists
Lest anyone sees your temper
I am veiled
but not veiled according to volition of my own free body
I am veiled because of your spoiled body and mind
You are asleep behind this worn out curtain, and I,
with this same ‘forbidden’ hair of mine
will weave a ladder as tall as the sunrise
to bring out the sun                                                                                        
Tricks and Tips