پاکستان میں قوم پرستی اور حب الوطنی متنازعہ فیہ موضوعات ہیں، یہ ہم پاکستانیوں کو کیا بناتے ہیں، اور اس سے کیسے ہم اپنی سرزمین اور قوم سے محبت کرتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں، ہماری قوم شناخت کا بڑا حصہ ہمارے تاریخی احساس اور ثقافت پر مشتمل ہے جبکہ خطے کی قدیم تہذیبوں کے ترکے کی جڑیں بھی کافی گہری ہیں، اسی طرح مذہب کا بھی اہم کردار ہے، مگر ہمارے نصاب میں شامل تاریخ کی کتابوں میں ہماری شناخت کے متعدد پہلوﺅں کا ذکر ہی موجود نہیں۔
نصاب میں یہ بتانے کی بجائے ہم کون ہیں، کی بجائے تاریخی حقائق میں ردوبدل کرکے ہمارے اپنی شناخت کے احساس کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا گیا ہے، اور ان کتابوں میں سب سے بڑا دھوکہ ان واقعات کے بارے میں جو ابھی تک ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔
ہیرالڈ نے اس معاملے پر ایسے مصنفین اور ماہرین کو دعوت دی جو تاریخ پر عبور رکھتے ہیں تاکہ وہ ان سوالات پر اپنے جوابات کو شیئر کرسکیں جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی تاریخی نصابی کتب میں انہیں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی تقسیم
پاکستانی تعلیمی کتب میں جو چیز سب سے بڑا جھوٹ سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی واحد وجہ ہی ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی اختلافات تھے، یہ تصور اس خیال پر مبنی ہے کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں تہذیبی طور پر منقسم ہے، جو کہ بالکل بھی ٹھیک نہیں۔
مذہب پر زور دینے کی وجہ سے دیگر عناصر کو نظرانداز کردیا گیا جو کہ دونوں شناختوں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہیں، مثال کے طور پر جنوبی ہندوستان کے بیشتر مسلمان شمالی علاقوں کی مسلم برادری کے مقابلے میں ہندوﺅں کے کافی قریب لگتے ہیں جس کی وجہ اس خطے کی خاص ثقافت اور زبانیں ہیں۔
اسی طرح ہندو اور مسلم ادوار کی تقسیم کے تاریخ میں ذکر کے حوالے سے اہم حقیقت یہ ہے کہ یہ برطانوی دور میں سامنے آیا، جس میں مسلم بادشاہتوں کو زیادہ نمایاں کیا گیا جو اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے، یعنی بابر نے ابراہیم لوڈھی کو شکست دی اور دہلی سلطنت کا خاتمہ کرکے مغل عہد کا آغاز کیا۔
یہ نصابی کتب دیکھنے میں ایسی تصاویر لگتی ہیں جس مین دونوں مذہبی برادریوں نے ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس اس کی مثال 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس حکومت کے قیام کی دی جاسکتی ہے۔
دیگر عناصر جو جنوبی ایشیاءکی تاریخ میں تاریخی طور پر مذہبی منافرت کا اظہار کا سبب بنے انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے، درحقیقت رچرڈ ایٹن کی ایک مندروں کے بارے میں ایک تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ لگ بھگ ایسے تمام واقعات جن میں ہندو مندروں کو لوٹا گیا، وہ واقعات سیاسی یا اقتصادی وجوہات کی بناءپر پیش آئے۔
بیشتر واقعات کی وجہ یہ تھی کہ مسلم حکمران باغی ہندو حکام کو سزا دینا چاہتے تھے، ورنہ مغل عہد میں تو مندروں کو تحفظ فراہم کیا گیا، اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو بین المذاہب تعاون کا مقصد سیاسی کنٹرول کو برقرار رکھنا تھا جس کی ایک مثال یونینسٹ پارٹی کی بھی دی جاسکتی ہے جو 1946 تک کسی نہ کسی شکل میں پنجاب میں حکمران رہی۔
پاکستان کے قیام کے بعد یہ تصور سامنے آیا کہ اس نئے ملک کی تشکیل ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان طویل اور بنیادی اختلافات کی بناءپر عمل میں آئی۔
— تحریر انوشے ملک: انوشے نے لندن یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی میں ڈگری لی ہے اور وہ اس وقت لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
رہنماﺅں کی قصیدہ خوانی
مقدمہ ابن خلدون کے دیباچے میں ان سات غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تاریخ دان اکثر کرتے ہیں، ان میں سے ایک"اعلیٰ حکام کی حمایت حاصل کرنے کی عام خواہش ہوتی ہے، اس مقصد کے لیے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور انہیں مشہور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے"۔
یہ غلطی یا جھوٹ پاکستان کی نصابی کتب کو 1950 کی دہائی سے اپنا شکار بنا رہا ہے اور اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گزشتہ حکمرانوں چاہے سویلین ہو یا فوجی، کی قصیدہ خوانی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بیوقوفی مختلف فریقین کو غائب کرنا ہے، یعنی ہندوستان اور کانگریس کو غیرضروری طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور قوم پرستی کی سوچ کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کا یکطرفہ تصور پیش کیا جاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد سے سکولوں کے طالبعلموں کے لیے تاریخی کتب میں یہ خلاءمووجد ہے اور ان حیرت انگیز طور پر تاریخی حقائق کو موڑ تروڑ کر پیش کرنے کی منظوری وفاقی اور صوبائی ٹیکسٹ بورڈز کی جانب سے دی جاتی ہے۔
مزید یہ کہ ' دشمن' کے خلاف اپنی دشمنی کا اظہار سرکاری تاریخی کتب میں کھلم کھلا اور غیرضروری طور پر بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے ایسا ہی سرحد کی دوسری جانب ہندوستانی اسکولوں میں بھی ہوتا ہے۔
بیشتر ریاستیں انیس ویں اور بیس ویں صدی میں تاریخ کے سرکاری ورژن کو استعمال کرتی تھیں تاکہ قوم پرستانہ اور یکساں شناخت کو قائم کیا جاسکے، پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم فضل الرحمان نے 1948 میں ہسٹوریکل سوسائٹی آف پاکستان کو قائم کای تھا، تاکہ نئی قوم کی تاریخ کو منصفانہ اور متوازن انداز میں لکھ کر اسے مستند اور قابل اعتبار ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
گزشتہ حکومتوں نے اس مقصد پر توجہ نہیں دی اور پاکستانی اسکولوں میں تاریخ پر لکھنا ٹیکسٹ بک بورڈز کا ہدف بن گیا جس میں مصنفین کے غیراخلاقی اور غیرعالمانہ کاموں کی توثیق کی جاتی جنھیں سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
ذاتی مفاد کے حصول کا یہ طریقہ 2004 کی اوپن ڈور پالیسی کے باوجود ختم نہیں ہوسکا، جس کے تحت نجی پبلشرز کو معیاری درسی کتب کی اشاعت کا موقع فراہم کیا گیا۔
— تحریر عصمت ریاض: عصمت تعلیمی مشیر اور ایک درسی کتاب انڈراسٹینڈنگ ہسٹری کی مصنفہ ہیں۔
No comments:
Post a Comment
Inayatullah