اگر کسی کو خاموشی کی آواز سننی ہو تو اسے ہرنائی سے سنجاوی جانے والی سڑک پر ضرور سفر کرنا چاہیے۔ کوئٹہ سے ہرنائی تک کا راستہ جتنا سفاک، پتھریلا اور بے مروت ہے، ہرنائی تا سنجاوی شاہراہ اتنی ہی سرسبز اور نشیلی ہے۔ مانو سبز کھردرے پہاڑوں کے درمیان ڈیڑھ گھنٹے کا پورا راستہ قدرتی ائرکنڈیشنڈ ہے۔
اگرچہ میرا ڈرائیور اعلان کر چکا ہے کہ وہ لورالائی سے آگے میرا ساتھ نہیں دے گا کیونکہ جہاں جہاں میں جانا چاہتا ہوں وہ بہت خطرناک جگہیں ہیں۔ لیکن اس کی یہ دھمکی بھی مجھے ہرنائی تا سنجاوی راستے کا مزا لینے سے باز نہیں رکھ پا رہی۔ میں انتہائی اونچائی سے انتہائی نیچائی میں چرنے والی سینکڑوں بھیڑوں کو فریم میں تصویر کی طرح دیکھ سکتا ہوں۔ پہاڑی چشمے زمین کے گالوں پر آنسوؤں کی باریک باریک لکیروں کی طرح بہہ رہے ہیں۔ کبھی کبھار آوارہ بادل کا کوئی ٹکڑا بلا اجازت گاڑی کی ایک کھڑکی میں سے داخل ہوکر دوسری کھڑکی سے شریر بچوں کی طرح بھاگ جاتا ہے۔
سنجاوی چونکہ تراہا ( ٹی جنکشن) ہے لہذا اسے سیاسی جماعتوں اور موبائل کمپنیوں نے اپنی نعرے بازی کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔ دیواروں نے بتایا کہ یہ مولانا فضل الرحمان کی مخالف جمعیت علمائے اسلام ( نظریاتی ) دھڑے کا علاقہ ہے مگر فضل الرحمان نواز بھی مزاحمت کررہے ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہوا ہے ’دو ملک ایک طوفان، ملا عمر اور فضل الرحمان‘ ۔۔۔سامنے کی دیوار پر درج ہے ’دو ملک دو رہبر مولوی عصمت اللہ، ملا عمر‘۔۔۔ دھڑے بندی کے باوجود ملا عمر مشترک ہیں۔
اونچائی سے نیچے کی طرف آنے والی بل دار سیاہ لکیروں پر مال بردار ٹرک کھلونے سے لگ رہے ہیں۔سڑک کے دورویہ مسلسل پیچھے بھاگنے والی پانچ پانچ فٹ اونچی جنگلی گھاس تیز ہوا کے سبب دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں یوں گول گول جھوم رہی ہے جیسے کوئی عورت کھلے بالوں کسی درگاہ پر دھمال کھیل رہی ہو۔
پھر سڑک اور نشہ دونوں اترائی کی طرف جانے لگے۔ سنجاوی قصبے کے آثار نمایاں ہونے لگے۔کونسا قصبہ بڑا ہے یا چھوٹا۔پہلے کسی راہ چلتے مقامی سے پوچھنا پڑتا تھا۔اب تو بہت آسان ہے۔جہاں موبائل فون کمپنی کا ایک آدھ ٹاور دکھائی دے سمجھ لیجیے چھوٹا قصبہ ہے۔ جہاں چار پانچ نظر آئیں ، سمجھ لیجئے کہ کم ازکم پندرہ ہزار کی آبادی تو ہوگی۔
سنجاوی پھلوں کے باغات سے مالامال علاقہ ہے۔ ہرنائی سے یہاں آنے والی سڑک اگر دائیں مڑے تو لورالائی کی جانب راستہ جا رہا ہے۔ بائیں مڑے تو زیارت اور کوئٹہ ہے۔ اور اگر دائیں مڑ کر پھر بائیں مڑ جائیں تو لورالائی کی تحصیل دکی اور پھر کوہلو تک سڑک جا رہی ہے یا آرہی ہے۔
سنجاوی چونکہ تراہا ( ٹی جنکشن) ہے لہذا اسے سیاسی جماعتوں اور موبائل کمپنیوں نے اپنی نعرے بازی کے لیے خوب استعمال کیا ہے۔ دیواروں نے بتایا کہ یہ مولانا فضل الرحمان کی مخالف جمعیت علمائے اسلام ( نظریاتی ) دھڑے کا علاقہ ہے مگر فضل الرحمان نواز بھی مزاحمت کررہے ہیں۔ ایک جگہ لکھا ہوا ہے ’دو ملک ایک طوفان، ملا عمر اور فضل الرحمان‘ ۔۔۔سامنے کی دیوار پر درج ہے ’دو ملک دو رہبر مولوی عصمت اللہ، ملا عمر‘۔۔۔ دھڑے بندی کے باوجود ملا عمر مشترک ہیں۔

اس فضا سے موبائل کمپنیاں زبردست کمرشل فائدہ اٹھا رہی ہیں
اس فضا سے موبائل کمپنیاں زبردست کمرشل فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ایک دیوار پر یہاں سے وہاں تک سرخ اور نیلے دائروں کے درمیان لکھا ہے۔
زونگ۔۔۔۔سب کہہ دو۔۔۔۔سبحان اللہ ۔۔۔۔سب کہہ دو
ایک دیوار پر لکھا ہے۔۔۔وارد ۔۔۔سعودی عرب کا نیٹ ورک
ایک اور دیوار پر درج ہے۔۔۔۔وارد کنکشن ۔۔۔نماز قائم کرو۔۔
مجھے یقین ہے کہ اگر ٹیکنالوجی اجازت دے تو یہ سیلولر کمپنیاں باریش موبائل فونز کا ایک لمیٹڈ ایڈیشن بھی لے آئیں لیکن ہر شے کی ایک لمٹ ہوتی ہے۔
میڈیا پہاڑی علاقوں کے سیلاب کو سیلاب ہی نہیں سمجھتا۔ میڈیا کے خیال میں جہاں ایک ایک مہینے تک پانچ پانچ فٹ پانی نہ کھڑا ہو اور ہزاروں لوگ ایک ہی جگہ پھنس نہ جائیں وہ سیلاب نہیں ہوتا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہاڑی نالوں کا سیلاب ایک آبی خنجر کی طرح ہوتا ہے جو علاقے کی گردن کاٹتا ہوا ترائی میں غائب ہو جاتا ہے جبکہ دریائی سیلاب اس اژدھے کی طرح ہوتا ہے جو شکار کو آہستہ آہستہ بل دے کر مارتا ہے۔ اژدھے کو دیکھ کر آپ کم ازکم بھاگنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن پہاڑی نالے کے خنجر سے تو آپ بچ ہی نہیں سکتے۔وہاں تو وارننگ ٹائم ہی زیرو ہوتا ہے۔
امانت حسین،صحافی
ڈیڑھ گھنٹے کے مزید سفر کے بعد میں سطح سمندر سے چار ہزار سات سو فٹ کی بلندی پر واقع لورالائی شہر میں داخل ہوگیا۔ شہر کا نقشہ اور ماحول خاصا چھاؤنیانہ ہے۔ انگریزوں نے اٹھارہ سو اسی کے عشرے میں اپنی چھاؤنی دکی سے یہاں منتقل کردی تھی کیونکہ فوجی اہمیت کے اعتبار سے لورالائی براستہ ژوب افغانستان سے آنے والے ، براستہ فورٹ منرو پنجاب جانے والے ، براستہ دکی کوہلو جانے والے اور براستہ زیارت کوئٹہ سے آنے والے راستے پر ایک اہم جنکشن بناتا ہے۔ان دنوں یہ نیم فوجی فرنٹیر کور کا علاقائی ہیڈکوارٹر ہے۔
لورالائی انیس سو تین سے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔ اس میں مختلف علاقے شامل ہوتے اور نکلتے رہے ۔ان دنوں یہ چار تحصیلوں لورالائی ،بوری میختر ، دکی اور دکی کی سب تحصیل سنجاوی پر مشتمل ہے۔ضلع کی آبادی ایک ملین کے لگ بھگ ہے۔اکثریتی قبائل میں کاکڑ، لونی، ناصر اور ترین شامل ہیں۔
مجھے گورنمنٹ ڈگری کالج لورالائی کے سابق پرنسپل فضل داد خان نے بتایا کہ لورالائی نام انگریزوں کے دور میں رکھا گیا۔نیا شہر بسنے سے پہلے یہاں بھیڑ بکریاں پالنے والے قبیلے آباد تھے اور اسی میل طویل پورا علاقہ وادی بوری کے نام سے جانا جاتا تھا لیکن انگریزوں نے لائی نامی پہاڑی نالے کے نام پر نئے شہر کی بنیاد ڈالی۔لورا لائی ( لائی ندی کا کنارہ)۔

لورالائی انیس سو تین سے ضلعی ہیڈ کوارٹر ہے۔
لورالائی میں قدیم ترین آبادی کے آثار موجود شہر سے بارہ کلومیٹر پرے رانا غنڈئی میں ملے ہیں۔جس طرح ژوب شہر سے دو کلومیٹر دور پان غنڈئی اور دکی کے قریب مغل غنڈئی کے آثار ہیں۔ان سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں لوہے کے دور ( آئرن ایج) میں محدود آبادیاں قائم ہو چکی تھیں۔ لیکن پہاڑی نالوں میں طغیانی کے سبب یہ آبادیاں تاریخ کے اوراق پر ابھرتی مٹتی رہیں۔رانا غنڈئی کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ یہ سات مرتبہ آباد اور سات مرتبہ برباد ہوا۔روم ہو کہ دلی کہ لاہور کہ رانا غنڈئی ۔یہ آخر سب سات مرتبہ ہی کیوں آباد یا برباد ہوتے ہیں بھائی صاحب ؟؟؟
انگریزوں کی آمد سے قبل ژوب سے سبی تک کا وسیع علاقہ تھل چوٹیالی کہلاتا تھا۔ پھر اسے سبی ضلع کے ذریعے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا۔ اس کے پیچھے غالباً یہ سوچ تھی کہ بلوچوں اور پشتونوں سے اگر الگ الگ نمٹا جائے تو حکمرانی میں آسانی رہے گی۔موجود ژوب ڈویژن چھ اضلاع پر مشتمل ہے۔قلعہ سیف اللہ ، ژوب، شیرانی ، موسی خیل ، بارکھان اور لورالائی۔
پروفیسر فضل داد خان ( موصوف کاکول اکیڈمی میں جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی کے موجودہ سربراہ جنرل طارق مجید کے ہم سال بھی رھ چکے ہیں لیکن اس بات کی تشہیر سے ہچکچاتے ہیں) سے ملاقات کے بعد میں ژوب ڈویژن کے کمشنر میر اختیار خان بنگلزئی کے ہاں پہنچا۔ چار پانچ موبائیل کالز اٹینڈ کرنے اور اپنے ماتحت دو ڈپٹی کمشنروں سے فون پر تحکمانہ عاجزی کا مظاہرہ کرنے کے بعد انہوں نے مجھے ژوب ڈویژن کا سیلابی نقشہ سمجھایا۔
آپ کو پورے ڈویژن میں کہیں بھی کوئی خیمہ بستی دکھائی نہیں دے گی۔کیونکہ ایک تو یہاں لوگ دور دور آباد ہیں۔دوسرے یہ کہ مقامی روایات کے تحت اپنا گھر چھوڑنا عمومی طور پر پسند نہیں کیا جاتا۔لوگ اپنی جگہ پر ہی خیمے، ادویات ، راشن اور مالی امداد کی توقع رکھتے ہیں۔
میر اختیار خان بنگلزئی، کمشنر ژوب ڈویژن
بقول بنگلزئی صاحب ’بارشوں اور پہاڑی نالوں کی طغیانی کے سبب چھ اضلاع میں ایک لاکھ پچانوے ہزار کے قریب لوگ جزوی یا کلی طور پر متاثر ہوئے ہیں۔لگ بھگ اسی فیصد کھڑی فصلیں ختم ہوئی ہیں۔لورالائی ڈیرہ غازی خان روڈ پر سو سے زائد پولٹری فارم بہہ گئے۔سب سے زیادہ مار لورالائی کی دکی تحصیل ، ضلع بارکھان اور موسی خیل کو پڑی۔لورالائی سے پنجاب براستہ فورٹ منرو جانے والا راستہ کئی روز تک کٹا رہا۔ژوب سے ڈیرہ اسماعیل خان جانے والا راستہ بھی پہاڑی تودے گرنے کے سبب بارہ دن بند رہا۔
بارشوں اور سیلابوں کا یہ سلسلہ بیس جولائی سے چودہ پندرہ اگست تک جاری رہا۔بظاہر آپ کو پورے ڈویژن میں کہیں بھی کوئی خیمہ بستی دکھائی نہیں دے گی۔کیونکہ ایک تو یہاں لوگ دور دور آباد ہیں۔دوسرے یہ کہ مقامی روایات کے تحت اپنا گھر چھوڑنا عمومی طور پر پسند نہیں کیا جاتا۔لوگ اپنی جگہ پر ہی خیمے، ادویات ، راشن اور مالی امداد کی توقع رکھتے ہیں۔
شروع میں چھ اضلاع پر مشتمل پورے ڈویژن کے لیے محض پندرہ لاکھ روپے کا امدادی فنڈ موجود تھا۔بعد میں مزید ایک کروڑ روپیہ مل گیا۔لیکن ضلعی انتظامیہ ، فوج، لورالائی سکاؤٹس اور نیم سرکاری ترقی فاؤنڈیشن نے مربوط انداز میں لوگوں کو بچانے کی کوششیں کیں۔‘
گوبھی یا ٹماٹر کے ایک ایکڑ پر پچاس سے ساٹھ ہزار روپے خرچہ آتا ہے اور فصل سے ڈھائی تا تین لاکھ روپے فی ایکڑ آمدنی ہوجاتی ہے۔لیکن شدید بارشوں نے اس مرتبہ گوبھی کو اجاڑ دیا۔اور جو فصل تیار بھی تھی وہ راستے بند ہونے کے سبب کھیتوں ، بوریوں یا ٹرکوں کے اندر ہی گل سڑ گئی۔ ایک ہفتہ تو ایسا بھی آیا کہ گوبھی کا پچیس کلو کا چھ سو روپے کا تھیلہ تیس روپے میں بھی کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ ٹماٹر کا دس کلوگرام کا کریٹ ساڑھے چار سو روپے سے گر کر پچاس روپے تک آ گیا لیکن اب اس کی قیمت دو سو روپے تک بحال ہوگئی ہے۔
امانت حسین
ایک زمانہ تھا کہ لورالائی کا خطہ اپنی کاریزوں کے سبب مشہور تھا۔لیکن یہ کاریزیں انیس سو چھیانوے کے بعد سے شروع ہونے والی خشک سالی نے ختم کردیں۔ لوگوں نے سیب اور بادام کے باغات بھی کاٹ ڈالے اور ان کی جگہ سبزیوں بالخصوص گوبھی اور ٹماٹر کی کاشت بڑھا دی۔ سبزیوں کی کاشت اس علاقے میں افغان مہاجرین کی آمد سے پہلے بہت کم ہوتی تھی۔انہی کی دیکھا دیکھی مقامی کاشت کاروں نے بھی سوچا کہ سبزیوں کی اگائی کم زمین سے زیادہ آمدنی حاصل کرنے کا بڑا اچھا طریقہ ہے۔
کمشنر بنگلزئی کے ساتھ ملاقات میں موجود مقامی صحافی امانت حسین نے بتایا کہ گوبھی یا ٹماٹر کے ایک ایکڑ پر پچاس سے ساٹھ ہزار روپے خرچہ آتا ہے اور فصل سے ڈھائی تا تین لاکھ روپے فی ایکڑ آمدنی ہوجاتی ہے۔لیکن شدید بارشوں نے اس مرتبہ گوبھی کو اجاڑ دیا۔اور جو فصل تیار بھی تھی وہ راستے بند ہونے کے سبب کھیتوں ، بوریوں یا ٹرکوں کے اندر ہی گل سڑ گئی۔ ایک ہفتہ تو ایسا بھی آیا کہ گوبھی کا پچیس کلو کا چھ سو روپے کا تھیلہ تیس روپے میں بھی کوئی نہیں اٹھا رہا تھا۔ ٹماٹر کا دس کلوگرام کا کریٹ ساڑھے چار سو روپے سے گر کر پچاس روپے تک آ گیا لیکن اب اس کی قیمت دو سو روپے تک بحال ہوگئی ہے۔
کمشنر بنگلزئی نے کہا کہ ’اس وقت بھی لوگ راشن ، چینی، چائے اور پانی جیسی مدد بھیج رہے ہیں حالانکہ یہ اشیا سیلاب کے پہلے مرحلے کے لیے تو کارآمد تھیں دوسرے مرحلے کے لیے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سردیاں آرہی ہیں تو گرم کپڑے چاہیئیں۔ جس کی مرغی ، بھیڑ، بکری یا گائے مرگئی ہے اسے نقد پیسے دینے کے بجائے اگر آپ کچھ مرغیاں ، دو چار بکریاں یا ایک آدھ گائے دے دیں۔ فصل کے لیے بیج یا کھاد کا انتظام کردیں تو متاثرہ لوگوں کی زیادہ بہتر مدد ہوسکتی ہے۔دودھ ، چینی ، آٹا ، چاول ہمیں بہت مل گیا ہے۔لیکن اگر امداد کرنے والوں کو ہم یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں تو الٹا ناراض ہوجاتے ہیں‘۔
اس وقت بھی لوگ راشن ، چینی، چائے اور پانی جیسی مدد بھیج رہے ہیں حالانکہ یہ اشیا سیلاب کے پہلے مرحلے کے لیے تو کارآمد تھیں دوسرے مرحلے کے لیے ان کی ضرورت نہیں ہے۔ اب سردیاں آرہی ہیں تو گرم کپڑے چاہیئیں۔ جس کی مرغی ، بھیڑ، بکری یا گائے مرگئی ہے اسے نقد پیسے دینے کے بجائے اگر آپ کچھ مرغیاں ، دو چار بکریاں یا ایک آدھ گائے دے دیں۔ فصل کے لیے بیج یا کھاد کا انتظام کردیں تو متاثرہ لوگوں کی زیادہ بہتر مدد ہوسکتی ہے۔دودھ ، چینی ، آٹا ، چاول ہمیں بہت مل گیا ہے۔لیکن اگر امداد کرنے والوں کو ہم یہ بات سمجھانے کی کوشش کریں تو الٹا ناراض ہوجاتے ہیں‘۔
کمشنر ژوب ڈویژن
صحافی امانت حسین نے شکوہ کیا کہ میڈیا پہاڑی علاقوں کے سیلاب کو سیلاب ہی نہیں سمجھتا۔ میڈیا کے خیال میں جہاں ایک ایک مہینے تک پانچ پانچ فٹ پانی نہ کھڑا ہو اور ہزاروں لوگ ایک ہی جگہ پھنس نہ جائیں وہ سیلاب نہیں ہوتا۔جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پہاڑی نالوں کا سیلاب ایک آبی خنجر کی طرح ہوتا ہے جو علاقے کی گردن کاٹتا ہوا ترائی میں غائب ہو جاتا ہے جبکہ دریائی سیلاب اس اژدھے کی طرح ہوتا ہے جو شکار کو آہستہ آہستہ بل دے کر مارتا ہے۔ اژدھے کو دیکھ کر آپ کم ازکم بھاگنے کی کوشش کرسکتے ہیں لیکن پہاڑی نالے کے خنجر سے تو آپ بچ ہی نہیں سکتے۔وہاں تو وارننگ ٹائم ہی زیرو ہوتا ہے۔
کوئی ایک گھنٹے کی گفتگو اور بریفنگ کے بعد کمشنر بنگلزئی نے اسی نوے برس پرانے بنگلے کے مختلف حصے دکھائے۔ پرانی طرز کے موٹے موٹے کالے سوئچوں والے لکڑی کے الیکٹرک بورڈز ، خالص لکڑی کی وارنش شدہ اوریجنل ٹیکسچر والی چھتیں۔ان میں سے دوتین پر کسی پچھلے جاہل رہائشی نے غالباً یہ سمجھ کر سفید پینٹ کروادیا کہ انگریز جلدی میں ان چھتوں پر رنگ کروانا بھول گیا ہوگا۔ ایک سو برس سے زائد مدت کا بنا ہوا لنکاسٹر پیانو بھی کمشنر ہاؤس میں موجود ہے۔یہ پیانو بھی کوئی افسر تبادلے کے سامان میں بندھوا کر ایک دفعہ اپنے ساتھ لے جاچکا ہے۔اسے بڑی مشکل سے بازیاب کروایا گیا۔مگر فائدہ کیا۔نہ کوئی بجاتا ہے۔نہ سنتا ہے۔۔۔۔بس روزانہ کپڑا مار کر چمکا دیا جاتا ہے۔۔۔
میں اب اریگیشن ریسٹ ہاؤس میں تنہا بیٹھا ہوں۔ ایک صحافی عالمگیر موسٰی خیل کا فون آچکا ہے کہ اگر میں چاہوں تو وہ صبح میرے ساتھ موسٰی خیل جا سکتا ہے۔ ڈرائیور سے میرے مذاکرات ناکام ہوچکے ہیں اور میں نے اسے کہہ دیا ہے کہ اگر وہ آگے نہیں جاتا تو پھر کوئٹہ واپس چلا جائے۔ میں صبح کوئی اور انتظام کرلوں گا۔ویسے بھی اب مجھے اس کاہل کو ساتھ رکھنے میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔بس مجھے ایک صحافی امیر محمد خان غلزئی کو فون کرنا ہے اور صبح گاڑی کا انتظام غالباً ہوجائے گا۔ لیکن جانا کہاں ہے۔لورالائی کی سب سے متاثرہ تحصیل دکی یا دور ازکار و دراز موسذی خیل۔۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا کہ اس پر میں صبح غور کرلوں۔کیا ہربات سونے سے پہلے طے کرنا ضروری ہے اے فضول انسان۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment
Inayatullah