اسلام اور مغرب میں یا اسلام اور مغربیت میں جو کشمکش چل رہی ہے، اس معرکے کے کئی میدانوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، لیکن بنیادی زور آزمائی دو میدانوں میں ہے۔ سرمایہ پرستی اور جنس پرستی۔ پہلے کو آپ مادّیت پرستی اور دوسرے کو شہوت پرستی بھی کہہ سکتے ہیں۔ دونوں کی ضرورت باہر کی دنیا میں اور دونوں کی خواہش انسان کی اندر کی دنیا میں فطری طور پر پائی جاتی ہے، لیکن اسلام کی کوشش اور تربیت یہ ہے کہ انسان کے اندر دنیا کی محبت کم سے کم کی جائے اور اس کی طبعی خواہش کو فطری پابندیوں کی لگام دی جائے، تاکہ اعتدال پسند معاشرہ وجود میں آئے اور سماج میں پائے جانے والے تمام طبقات کے حقوق ادا کیے جاسکیں۔ مغرب کی کوشش یہ ہے کہ یہ دونوں چیزوں کی خواہش… جن کی طرف فطری طور پر شدید رغبت پہلے سے پائی جاتی ہے… اور جن کا ایک حد سے زیادہ بڑھنا انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے… ان دونوں چیزوں کی خواہش کو مصنوعی طور پر خوب اُبھارا جائے اور اس کالی آگ کو اتنا بڑھکایا جائے کہ اس میں معقولیت اور شرافت بھسم ہوکر خاک ہوجائیں۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ یہ کشمکش اسلام اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں، اسلام اور مغرب میں ہے۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ یہ کشمکش اسلام اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں، اسلام اور مغرب میں ہے۔

سب سے پہلے سرمایہ داری یا مادّیت پرستی کی طرف آئیے۔ مغرب کے متمدن اور ترقی یافتہ ممالک کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو پوری روئے زمین پر نہ کوئی انسان بھوکا سوئے نہ کوئی حیوان قحط سے مرے، لیکن اس نے اپنے اس سرمائے اور مادّی طاقت کو انسان کی فلاح کے بجائے انسانی وسائل پر قبضہ جمانے اور اس پر نفس پرستی یا شیطان پرستی کا نظریہ تھوپنے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ آپ دنیا میں پائے جانے والے معدنی وسائل پر نظر دوڑا لیجیے۔ خلیجی ممالک کا تیل و گیس ہو یا افغانستان کے یاقوت و زُمرد، تنزانیہ کا نیلا ہیرا ہو یا زمبیا کا کاپر۔ وینزویلا اور بولیویا سے لے کر انڈونیشیا کے صوبے آچے تک، اور تھر کے کوئلے سے لے کر سینڈک کے زرّیں ذخائر تک، روئے زمین پر قدرت نے جہاں بھی اپنی نعمتوں کو بنی نوع انسان کے لیے بکھیرا ہے، وہاں مغرب کے سرمایہ دار اپنے نوکیلے دانت گاڑے ہوئے ہیں اور مقامی آبادی کو کسی قیمت پر ان کی زمین سے نکلنے والی دولت سے استفادہ کرنے کا حق دینے پر تیار نہیں۔ انہوں نے اپنے کاسہ لیسوں کو پسماندہ اقوام کے خزانوں پر سانپ بناکر مسلط کر رکھا ہے اور دنیا بھر کے غریبوں کی دولت لوٹ لوٹ کر اپنا جہنم بھررہے ہیں جو شیطان کی آنت کی طرح اتنا لمبا ہے کہ بھر کے ہی نہیں دیتا۔
ستم بالائے ستم یہ ہے کہ گوری اقوام رنگ دار قوموں کے خون کا قطرہ قطرہ نچوڑنے کے بعد بدلے میں ان کو ایسی تہذیب سے نواز رہی ہے جس میں اخلاقی اقدار نام کو نہیں۔ مغرب کا پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، حکومتیں ہوں یا حکومتوں کو مٹھی میں جکڑنے والے سرمایہ دار، بدلے میں وہ غریب اقوام کو مفاد پرستی اور نفس پرستی سکھارہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک خود مغربی ممالک میں کسی یونیورسٹی کے پرنسپل کی سالانہ تنخواہ اتنی نہیں جتنی ایک ماڈل گرل کی ہفتے کی آمدنی۔ ایک اداکار یا گلوکار ایک تقریب سے اتنا کمالیتا ہے جتنا ایک ماہر تعلیم دانش ور مہینے بھر میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ دنیا سے سب کچھ لے کر بھی بدلے میں اسے یہ کچھ دینا سفلہ پن کی وہ بدترین صورت ہے جس نے پوری انسانیت کو دردناک المیے سے دوچار کر رکھا ہے۔ مادّیت پرستی کے علمبرداروں کی گرفت دیکھیے کہ ایشیائی ممالک نے آئی ایم ایف کی اس جکڑ بندی کے مقابلے کے لیے بینک بنانا چاہا (جس کے مقاصد و نتائج خدا جانے کیا ہوں گے) تو چین کے پڑوس میں کوریا نے اس میں شمولیت کے بجائے مغرب کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔
اب جنس پرستی کو ذرا دیکھ لیجیے۔ انسان کے اندر اس کا منہ زور جذبہ قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ اسلام اور ہر آسمانی مذہب اس کو لگام دینے اور معقول حدود کا پابند رکھنے پر زور دیتا ہے، جبکہ مغرب انسان کو ورغلا ورغلاکر اس کی نفسانی خواہشات کو اُبھارتا اور انہیں اتنا بے لگام کر رہا ہے کہ حیوان پیچھے رہ جائیں۔ آج کے انسان کو پیٹ اور شرم گاہ کی بھوک مٹانے کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ اور بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ انسان کو حاصل دو عظیم شرف یعنی نسب اور عفت مغرب میں عنقا ہوچکے ہیں۔ وہاں باپ کے خانے میں ماں کا نام لکھا جارہا ہے اور عفت و عصمت نام کی چیز قطعاً معدوم ہوچکی ہے۔ اسلام نے ان دو عظیم و قابل فخر صفات کے چراغ کو مغرب کی شیطانی پھونکوں کے علی الرغم محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مشرقی یا اسلامی معاشروں میں یہ چیز جو گوہر انسانیت ہے، تاحال محفوظ و باقی ہے۔
اہلِ مغرب اس پر فخر کرتے نہیں تھکتے کہ تمام جدید ایجادات کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے، لیکن اس بات پر انہیں شرم سے پانی ہوجانا چاہیے کہ ان تمام ایجادات کا غلط استعمال بھی اسی نے انسان کو سکھایا ہے۔ اس وقت زمین پر جتنے بھی گناہ ہورہے ہیں، چاہے وہ سود اور جوئے جیسے مالیاتی جرائم ہوں یا شراب اور زنا جیسے سماجی جرائم، ان سب کے پھیلانے میں سب سے زیادہ دخل مغرب اور اس کی ایجادات کا ہے۔
مسلمان اس وقت بنی نوع انسان میں وہ واحد گروہ ہیں جو نہ صرف خالق کائنات کی عبادت سب سے زیادہ کرتے ہیں، بدنی عبادت بھی اور مالی عبادت بھی، بلکہ شیطان اور شیطانی طاقتوں کے آگے سب سے بڑی اور واحد رکاوٹ اس وقت مسلمان ہیں۔ ورنہ مغرب کی طرح مشرق کے غیرمسلم بھی مادّیت پرستی اور شہوت پرستی کے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ باطل کو چونکہ بقا نہیں، خالق کائنات نے اس کی تقدیر میں فنا اور زوال لکھا ہے، اس لیے کمیونزم و سوشلزم کی طرح سیکولرازم اور کیپٹل ازم بھی اپنی آخری حد تک پہنچنے کے بعد زوال کی ڈھلان پر اوندھے منہ لڑھکے گا۔ مغرب کے گھڑے ہوئے مادّیت پرستی اور لذت پرستی کے بت فطرت سے ہارکر آخرکار پاش پاش ہوجائیں گے۔ جب عصر حاضر کے یہ لات و منات ڈھائے جائیں گے… اور عنقریب دنیا ان سے بیزار ہوکر انہیں ڈھادے گی… تو پھر آج کے پُرفتن دور میں پائے جانے والے اہلِ ایمان کا امتحان شروع ہوگا کہ وہ تھکی ہاری انسانیت کو حق کی دعوت سے روشناس کرواتے ہیں یا پھر مغرب کے فتنہ پردازوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ کوئی اور بت کسی اور نام سے گھڑلیں۔ بت پرستوں کے مقابلے میں بت شکنوں کا یہ امتحان کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اس وقت کے لیے پہلے سے تیاری کرچکے ہوں۔
No comments:
Post a Comment
Inayatullah