وہ جو موجہ نور سے لڑرہا ہے


کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے اپنی روح شیطان کے حوالے کردی ہے۔ اس ملک اور اسلام کے درمیان حائل یہ سیکولر حضرات کووّں کی طرح کائیں کائیں کرتے ہوئے، بے محابا جھوٹ شعار کرتے ادھورے لوگ۔ پرویزرشید وفاقی وزیراطلاعات جن کے نمائندے۔ ایسا نہیں کہ وہ علم نہیں رکھتے ، وہ آگاہ ہیں مگر روح مردہ، عقل پراگندہ اور مادی مفاد ہی اصلِ حیات ہوں تو جھوٹ اس طرح گرفت کرتا ہے کہ عادت بن جاتا ہے۔
چراغ حسن حسرت نے ’’زرنیخ کے خطوط‘‘ اس عنوان مریخ کے ایک ایسے باشندے کا احوال رقم کیا ہے جو زمین کی طرف آنکلا ۔ وہ کرہ ارض سے اپنے دوست توبیخ کو مریخ خط لکھتا ہے ’’میں سمجھتا تھا کہ کرہ ارض کے باشندے مجھے کوئی نئی بات سکھانہیں سکتے لیکن اے توبیخ میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگیا ہوں کیونکہ ان کے پاس جھوٹ ہے جو ہمارے پاس نہیں۔ دراصل ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ ہم جھوٹ بولنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ اس میں ایک ناقابل بیان لذت ہے۔ ایک حیرت انگیز آسودگی ہے۔ قسم ہے اس نیل گوں وسعت کی کہ ترامید (مریخ) کی وادیوں میں کوئی پھل ایسا نہیں جو شیرینی میں جھوٹ کا مقابلہ کرسکتا ہو‘‘۔ روحانی تربیت سے محرومی ہو، جھوٹ عادت ہو اور آدمی وزیر بھی ہو تو پرویز رشید بن جاتا ہے۔ شعائر اسلام کا مذاق اڑانے اور لاپرواہی برتنے میں نفس کے سپرد۔ ختم المرسلین آقاصلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے درخواست گزار ہوا کرتے تھے:
’’اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! میں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں۔ میرے سارے کاموں کو درست فرمادے اور مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے نفس کے حوالے نہ کر۔‘‘
پرویزرشید کہتے ہیں ’’وہ چاہتے ہیں کہ وہ کتاب نہ چھپے جو آپ تحریر کرتے ہیں۔ وہ فکر عام نہ ہو جس کی شمع آپ جلاتے ہیں۔ لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتاب دی جائے تو کونسی دی جائے، موت کا منظر عرف مرنے کے بعد(قہقہہ)۔‘‘ کب اہل مدرسہ کسی لکھاری شاعر یا فنون لطیفہ کے ماہر کی کتاب یا فکر کی راہ میں حائل ہوئے۔ یہاں ہرطرح کے افکار اور نظریات کے لوگ فعال اور سرگرم ہیں۔ کب اہل مدرسہ نے قدغن لگائی۔ کب اور کسے مجبور کیا گیا کہ موت کا منظر کتاب پڑھے۔ بخدا یہ استہزاء ہے۔ ایک ایسی کتاب کا مذاق بدمستی سے بھی آگے کی چیز ہے جس میں موت اور مابعد کا بیا ن ہے، جنت کا روشن اور جہنم کا خوفناک چہرہ دکھایا گیا ہے۔  رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جب سے اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کی ہے اس وقت سے آدم کی اولاد کوموت سے زیادہ تلخ تجربہ کسی چیز کانہیں ہوا۔ تاہم موت آئندہ پیش آنے والے مراحل سے آسان ہے۔ وہ ایسے خوف سے گزریں گے کہ ان کا جسم پسینے میں نہاجائے گا اور پسینے کی دھاریں ان کی ٹھوڑیوں کے گرد جمع ہوجائیں گی۔ پسینے کا ایسا سمندر بن جائے گا کہ جہاز اس پر تیر سکیں۔‘‘
خطاب کے جلیل القدر فرزند عمرفاروق رضی اللہ عنہ مصر سے وسطی ایشیاء تک وسیع علاقے پرخلیفہ تھے۔ ایک مرتبہ گہری آہ بھرتے ہوئے دعا کی: ’’اے اللہ مجھ میں مزید ذمہ داری نبھانے کی سکت نہیں ہے۔ میری جان لے لے اور اپنی بارگاہ میں بلالے‘‘۔ وہ دنیا کی زندگی پر موت کے بعد کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے۔
سعد ابن ربی رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں بری طرح زخمی ہونے کے بعد آخری سانسیں لے رہے تھے۔ محمد ابن مسلم عالی مرتبت آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام لے کر آئے۔ آہستہ سے جواب دیا: ’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام کہنا۔ خدا کی قسم احد پہاڑ کے پیچھے سے مجھے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘
انسان مرنے کے بعد کہاں جاتا ہے؟ موت کیا ہے؟ کیا اس دنیا سے ماورا بھی کوئی دنیا ہے؟ عقل کی محدودیت ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس موقع پر انبیاء جوالہام کا واحد ماخذ ہیں بھٹکتی عقل کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ آگاہ کرتے ہیں موت کی کیفیات اور مرنے کے بعد کے احوال سے۔ پرویز رشید نے جس کتاب کی ہنسی اڑائی ہے۔ اس کا ماخذ اور مرکز انبیاء کا الہام ہے۔
کمزور باتوں کو بنائے استدلال ٹہراتے ہوئے دینی مدارس پر تنقید، انہیں جہالت کی فیکٹریاں قرار دینا اور ان کے نصاب کو نفرت اور جہالت کی تعلیم کہنا بجائے خود جہالت ہے۔ نفرت فرقہ واریت اور شدت پسندی کا فروغ نصاب تعلیم کے حوالے سے وہ کمزور ترین الزام ہے جو سیکولر شدت پسند اور بیرونی عناصر دینی مدارس پر لگاتے رہتے ہیں۔ برصغیر ہی نہیں وسطی ایشیاء اور مغربی ممالک میں پھیلے ہوئے لاتعداد دینی مدارس فقہ حنفی سے منسلک دیوبندی ہوں یا بریلوی ان کے درس نظامی کی کتابوں کا جائزہ لیجئے۔ حقیقت واضح ہوجائے گی۔
۱۔ صحاح ستہ کے مصنفین میں سے کوئی بھی حنفی مسلک سے تعلق نہیں رکھتا۔ صرف طحاوی حنفی المسلک ہیں جن کی طحاوی صحاح ستہ میں شمار بھی نہیں کی جاتی۔
۲۔ تفسیر بیضاوی، تفسیر جلالین کی مصنفین شافعی المسلک ہیں۔
۳۔ تفسیر زمخشری کے مصنف معتزلی عقیدے کے ہیں۔
۴۔ شرح تہذیب کے مصنف ایران کے عبداللہ بن حسن اصفہانی شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۵۔ المنجد عربی کے مصنف لوئیس عیسائی ہیں۔
۶۔ المعجم المفہرس کے مولف مستشرقین میں سے ہیں۔
۷۔ فقہ کی سب سے بڑی زیردرس کتاب ’’ہدایہ‘‘ کا حاشیہ ’’الدرایہ‘‘ ہے جو حافظ ابن حجر عسقلانی کی تصنیف ہے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔
جو نصاب تعلیم مختلف مکاتب فکر کے علماء کی تصانیف پر مشتمل ہے اس سے فرقہ واریت تنگ نظری اور تعصب کا فروغ کیسے ممکن ہے۔ بہت سی اندرونی اور بیرونی قوتیں نسلی، قومی، مذہبی، گروہی اور فکری اختلافات کو ہوا دے کراس معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کررہی ہیں جبکہ آپ ہر اعتبار سے تحقیق کرکے دیکھ لیں ان عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دینی حلقے ہیں۔ جہاں تک فرقہ پرست تنظیموں کا تعلق ہے دینی مدارس کے اندر عمومی فضا فرقہ پرست تنظیموں کے حق میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں ’’دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیامیں ہے وہ ملعون ہے۔ مگر اللہ کا ذکر اور جو چیزیں اللہ سے متعلق ہیں اور عالم اور طالبعلم‘‘۔ اللہ کا ذکر، اللہ سے متعلق چیزیں، عالم اور طالبعلم دینی مدارس اس رحمت کی تجسیم ہیں۔
علم کے دو ماخذ ہیں جن سے انسانیت سیراب ہوتی ہے۔ ایک انسانی عقل جس سے تسخیر کائنات کے دروازے کھلے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز کمالات سامنے آئے۔ معلوم کی دنیاوسیع ہوئی۔ اس کا اعتراف ضروری ہے۔ علم کا ایک اور اہم ترین ماخذ الہام ہے۔ انبیاء کا علم، جس کا نکتہ عروج اور اختتام ختم المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آئن اسٹائن ان دو کا تقابل کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’معاشرتی زندگی کی گتھیاں تنہا عقل کی مدد سے نہیں سلجھ سکتیں۔ سائنس کی تحقیقات اکثر اوقات نوع انسانی کے لیے بڑی مہلک ثابت ہوئی ہیں۔ ان سے انسان کی طبعی زندگی کو آرام اور عشرت تو ضرور مل گئی مگر اس کی داخلی دنیا میں عجیب قسم کا کرب و اضطراب پیدا ہوگیا۔ وہ اپنے میکانکی ماحول کا غلام بن گیا اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ اسے خود اپنی تباہی کے لیے بڑے بڑے ہلاکت آفریں سامان مل گئے۔ عقل صرف خدمت کرسکتی ہے۔ رہنمائی نہیں کرسکتی۔ صداقت جو بذریعہ وحی ملتی ہے اس کی بنیاد عقل پر نہیں ہوتی لیکن وہ تجربہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔‘‘ مسلمانوں کے باب میں اس کی اہمیت جدا ہے۔ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کتنی ہی کوششیں کرلیں، کتنی ہی کالج اور یونیورسٹیاں قائم اور نئی ایجادات کرلیں لیکن مسلمانوں کی ترقی عروج اور نشاط ثانیہ اسلام میں ہے۔ دینی مدارس میں جس کا درس دیا جاتا ہے۔ قیصر و کسری کا مقابلہ ان کے برابر مادی ترقی پیدا کرکے نہیں بلکہ اسلام سے کیا گیا تھا۔
پرویز رشید مزید کہتے ہیں ’’لاؤڈاسپیکر بھی ان کے قبضہ میں دے دو اور دن میں ایک دفعہ کے لیے نہیں بلکہ پانچ دفعہ کے لیے دیدو۔‘‘ معلوم نہیں انہیں اعتراض اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر ہے یا ان موذن حضرات پر جن کے قبضے میں بوقت اذان لاؤڈاسپیکر ہوتا ہے۔ جن کے بارے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’قیامت کے د ن اذان دینے والے سب سے بلند مقام پر ہونگے اتنے کہ لوگوں کو دور سے نظر آجائیں گے۔‘‘ عالم روحانی کے کتنے باب ہیں جو اذان کی آواز سے قلب و نظر میں رقم ہوتے ہیں۔ یہ اذان کا نغمہ سرمدی تھا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ برسوں بعد مدینہ تشریف لائے پورا مدینہ ان کی دید کو باہر نکل آیا۔ امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالی علیھم اجمعین نے اذان کی درخواست کی تو تڑپ اٹھے۔ مدینے کی فضاؤں میں انکی اذان کی آواز گونجی تو پورا مدینہ بے تابی سے پچھاڑیں کھانے لگا۔ لوگ روتے روتے بے حال ہوگئے۔ کونسا عہد کونسا زمانے ہے جب مسلمانوں کی بستیاں اس کیفیت سے خالی رہی ہوں۔ چند برس پیشتر استنبول کی ایک مسجد میں آٹھ برس بعد اذان کی آواز گونجی تو ایک لمحے کے لیے جیسے وقت ٹہر گیا ہو۔ اس کے بعد کون تھا جو دیوانہ وار اذان کی آواز کی طرف نہیں دوڑرہا تھا۔ مسجد کے میناروں سے حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح کی صدائیں رفعت و بلندی کے نئے آفاق کھولتی ہیں۔ تمام سیکولر یاد رکھیں ان کی بکواس کی تو حقیقت کیا ہے زمانے بھرکی تمام طاقتیں بھی یکجا ہوجائیں تو اسلام کے آثار کو نہ تو مٹاسکتی ہیں اور نہ دھندلا کرسکتی ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭

مذہب برائے فروخت

مذہب برائے فروخت
رمضان المبارک کے مقدس مہینے کی ہی بات نہیں ہے بلکہ ہمارے ٹی وی چینلز نے ہر مذہبی تہوار کوبے قدر کر دیا ہے۔ بات صرف رمضان المبارک میں سحری و افطاری نشریات کی نہیں ہے، ہر مذہبی تہوار پر پر ہمارے ٹی وی چینلوں نے مذہب سے منسلک لوگوں کو دین کے اصل پیغام کی ترویج کی بجائے بے معنی ہلڑبازی کے ذریعے ذہنی کوفت کا شکار کیاہے۔ ہمارے اداکار، رقاصاور کھلاڑی ایسے مواقع پر خود کو کامل مسلمان ثابت کرنے کی بے جا کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ افطاری و سحری ، محرم الحرام ، عید الاضحٰی ، عید الفطر ، لیلتہ القدر ہویا کوئی بھی مذہبی تہوار ہم نے مذہب کو ہر ممکن حد تک اور ہر طرح سے بیچا ہے، کبھی موبائل کے ڈبوں کےذریعے تو کبھی موٹر گاڑی اورشربت کی بوتلوں کی مدد سے۔ قہقوں سے لبریز خواتین اور مردوں کی محفلیں جس شان و شوکت سے افطاروسحر کے دوران سجائی جا رہی ہیں وہ رمضان کےسادگی اور صبر کے بنیادی پیغام سے متصاد م ہے۔ ٹی وی چینلوں پر مذہب کی روحانیت اور تقدس کو نظرانداز کرتے ہوئے محض ریٹنگ اور اشتہارات کے حصول میں دلچسپی کے باعث رمضان کی نشریات افسوس ناک حد تک قابل اعتراض ہیں۔
سحرو افطار کے دوران چند ایک پروگراموں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو درپیش شدت پسندی، قدامت پرستی اور علمی انحطاط جیسے مسائل پر کسی قسم کی گفتگو سننے کا موقع نہیں ملا
یہ کیسا رمضان ہے کہ جس میں سحرو افطارکے دوران بڑے بڑے سٹوڈیوز میں انعامات کی بھرمار چل رہی ہے، اور لوگوں کو تزکیہ نفس اور حسن معاشرت کا پیغام دینے کی بجائے نفسانی خواہشات میں مزید الجھایا جارہا ہے۔ سحرو افطار کے دوران چند ایک پروگراموں کو چھوڑ کر مسلمانوں کو درپیش شدت پسندی، قدامت پرستی اور علمی انحطاط جیسے مسائل پر کسی قسم کی گفتگو سننے کا موقع نہیں ملا۔
رمضان نشریات کے دوران موسمی علماء اور اشتہاری مبلغین کے رٹے رٹائے مضامین کے سوا معاصر مذہبی مسائل پر کہیں فکر نو کی ترویج کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ علمائے دین کے برس ہا برس کے آزمودہ خطبات ، تقاریر اور بیانات میں مسلم دنیا کے مسائل پر گفتگو کی بجائے وہی صدیوں پرانی تقلیدی روش حاوی ہے۔ اگر ان ٹی وی چینلوں کو ایک ماہ مذہب پر بات کرنے کا موقع مل ہی گیا ہے تو اخلاق حسنہ اور مہذب معاشرتی اقدار کی ترویج کی کوشش کی بجائے ہر برس کی طرح محض روایات کی جگالی جاری ہے۔ رمضان کی نشریات محض انعامات کی تقسیم کے ذریعے کاروباری اداروں کی تشہیر کا ایک سنہری موقع بن کر رہ گئی ہے۔ اس ہڑبونگ میں پی ٹی وی کو داد دینا ضروری ہےجو سحری کے وقت مذہب پر روایتی مگر پر مغز گفتگونشر کررہا ہےلیکن مجال ہے جو کسی اور چینل نے کوئی ڈھنگ کاپروگرام پورے ماہ میں دکھایاہو ۔
رمضان کی نشریات کے دوران دکھائی دینے والے چہرے بہروپ بدلنے میں اس قدر ماہر ہیں کہ رمضان کے آغاز اور اختتام کے ساتھ ہی اپنے چینل کی ہدایت پر نیا روپ دھار لیتے ہیں۔ یہ خواتین وحضرات سکرین پر رہنے کے لیے تسبیح پکڑنے سے لے کر ڈھول بجانے تک ہر سوانگ بھرنے کے ماہر ہیں۔ جیسے ہی ایک مذہبی تہوار ختم ہوتا ہے یہ اداکار “سیزن” تک کے لیے اپنے اپنے معمولات میں مشغول ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ کسی اداکار، گلوکار یا بہروپیے کا مذہب پر بات کرنا غلط نہیں تاہم مذہب پر بات کرنے کے لیے جس سنجیدگی، علمیت اور دینی و عصری علوم پر دسترس کی ضرورت ہے وہ رمضان کی خصوصی نشریات کے کسی میزبان میں دکھائی نہیں دیتی
اگرچہ کسی اداکار، گلوکار یابہروپیے کا مذہب پر بات کرنا غلط نہیں تاہم مذہب پر بات کرنے کے لیے جس سنجیدگی، علمیت اور دینی و عصری علوم پر دسترس کی ضرورت ہے وہ رمضان کی خصوصی نشریات کے کسی میزبان میں دکھائی نہیں دیتی۔ یا تو وہ موسمی بٹیر ہیں جو صرف خوش رو ہونے اور معروف ہونے کے باعث مذہبی پروگراموں کی زیب و زینت بڑھانے کے لیے آرائشی نمونے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے یا پھر وہ مذہبی علماء ہیں جو معاصر علوم سے بے بہرہ ہیں۔ معروف فلم سٹار سعود جو سامنے لکھے ہوئےمکالمے ٹھیک سے ادا نہیں کرپاتے وہ ایک نجی چینل پر انتہائی ڈھٹائی سے اسلام پر لیکچر دے رہے ہیں ۔ ابرار الحق صاحب نے بھی ایک ٹی وی پر سحری کی نشریات شروع کر دی ہیں، اداکارہ نو ر ، جویریہ عباسی اور پاکستان کےنام نہاد مذہبی دانشور عامر لیاقت صاحب بھی مسلسل موبائل، لان کے سوٹ اور موٹر سائیکلوں کے ذریعے اسلام کا پیغام عام کررہے ہیں۔اگرچہ کسی خوش رو خاتون یا مرد کا مذہب پر بات کرنا قطعاً کوئی جرم یا گناہ نہیں تاہم مذہب جیسے سنجیدہ معاملے کو محض کھیل کود یا تفریح کے سپرد کردینا کسی طرح دانشمندی نہیں۔
اشتہاروں اور ریٹنگ کے لیے لوگوں کو بے وقوف بنانے کی خاطر مذہب کا سہارا لینا علمی بددیانتی ہے اور مذہب پر سنجیدہ بحث اور مکالمے کی راہ میں روکاوٹ ہے۔ یہ کیسی تشہیر ہے یہ کیسی مارکیٹنگ ہے کہ ہم مذہب کو اس طرح دکانوں میں مٹھائی کی طرح بیچ رہے ہیں ۔عامر لیاقت صاحب جب پروگرام میں بولنے لگتے ہیں تو پس منظر میں نعت کی آواز مدھم ہو جاتی ہے پھر جب وہ چپ ہوتے ہیں نعت کی آواز گونجنے لگتی ہے۔ مذہب کوموضوع بحث بناتے وقت اسے ایک کاروباری موقع کی بجائے علمی ذمہ داری سمجھنا زیادہ ضروری ہے کیوں کہ مذہب ایک نہایت سنجیدہ معاملہ ہے اور اسے سمجھنے، پھیلانے اور موجودہ زمانے کے لیے قابل قبول بنانے کے لیے اسی قدر متانت اور سنجیدگی کی ضرورت ہے۔

عصر حاضر کے لات و منات

اسلام اور مغرب میں یا اسلام اور مغربیت میں جو کشمکش چل رہی ہے، اس معرکے کے کئی میدانوں کی نشان دہی کی جاسکتی ہے، لیکن بنیادی زور آزمائی دو میدانوں میں ہے۔ سرمایہ پرستی اور جنس پرستی۔ پہلے کو آپ مادّیت پرستی اور دوسرے کو شہوت پرستی بھی کہہ سکتے ہیں۔ دونوں کی ضرورت باہر کی دنیا میں اور دونوں کی خواہش انسان کی اندر کی دنیا میں فطری طور پر پائی جاتی ہے، لیکن اسلام کی کوشش اور تربیت یہ ہے کہ انسان کے اندر دنیا کی محبت کم سے کم کی جائے اور اس کی طبعی خواہش کو فطری پابندیوں کی لگام دی جائے، تاکہ اعتدال پسند معاشرہ وجود میں آئے اور سماج میں پائے جانے والے تمام طبقات کے حقوق ادا کیے جاسکیں۔ مغرب کی کوشش یہ ہے کہ یہ دونوں چیزوں کی خواہش… جن کی طرف فطری طور پر شدید رغبت پہلے سے پائی جاتی ہے… اور جن کا ایک حد سے زیادہ بڑھنا انسانیت کے لیے زہر قاتل ہے… ان دونوں چیزوں کی خواہش کو مصنوعی طور پر خوب اُبھارا جائے اور اس کالی آگ کو اتنا بڑھکایا جائے کہ اس میں معقولیت اور شرافت بھسم ہوکر خاک ہوجائیں۔

آگے بڑھنے سے پہلے یہ سمجھ لیں کہ یہ کشمکش اسلام اور کسی دوسرے مذہب میں نہیں، اسلام اور مغرب میں ہے۔
مغرب کی اکثریت کا اپنا کوئی آسمانی مذہب یا روحانی نظریہ نہیں، اس کا نظریہ یہی مادّیت پرستی اور لذت پرستی ہے۔ لات و منات اور اہرمن ویزداں کی طرح اس نے یہ دو بت یا فرضی معبود گھڑ رکھے ہیں اور وہ نہ صرف یہ خود ان کی پوجا کررہا ہے، بلکہ اپنی تمام تر طاقت صرف کرکے اس دو نکاتی حیوانی نظریے کو پوری دنیا پر مسلط کرنے کی کوشش کررہا ہے جو درحقیقت شیطان کی پرستش کا دوسرا نام ہے۔


سب سے پہلے سرمایہ داری یا مادّیت پرستی کی طرف آئیے۔ مغرب کے متمدن اور ترقی یافتہ ممالک کے پاس اتنی دولت ہے کہ اگر وہ چاہیں تو پوری روئے زمین پر نہ کوئی انسان بھوکا سوئے نہ کوئی حیوان قحط سے مرے، لیکن اس نے اپنے اس سرمائے اور مادّی طاقت کو انسان کی فلاح کے بجائے انسانی وسائل پر قبضہ جمانے اور اس پر نفس پرستی یا شیطان پرستی کا نظریہ تھوپنے کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ آپ دنیا میں پائے جانے والے معدنی وسائل پر نظر دوڑا لیجیے۔ خلیجی ممالک کا تیل و گیس ہو یا افغانستان کے یاقوت و زُمرد، تنزانیہ کا نیلا ہیرا ہو یا زمبیا کا کاپر۔ وینزویلا اور بولیویا سے لے کر انڈونیشیا کے صوبے آچے تک، اور تھر کے کوئلے سے لے کر سینڈک کے زرّیں ذخائر تک، روئے زمین پر قدرت نے جہاں بھی اپنی نعمتوں کو بنی نوع انسان کے لیے بکھیرا ہے، وہاں مغرب کے سرمایہ دار اپنے نوکیلے دانت گاڑے ہوئے ہیں اور مقامی آبادی کو کسی قیمت پر ان کی زمین سے نکلنے والی دولت سے استفادہ کرنے کا حق دینے پر تیار نہیں۔ انہوں نے اپنے کاسہ لیسوں کو پسماندہ اقوام کے خزانوں پر سانپ بناکر مسلط کر رکھا ہے اور دنیا بھر کے غریبوں کی دولت لوٹ لوٹ کر اپنا جہنم بھررہے ہیں جو شیطان کی آنت کی طرح اتنا لمبا ہے کہ بھر کے ہی نہیں دیتا۔

ستم بالائے ستم یہ ہے کہ گوری اقوام رنگ دار قوموں کے خون کا قطرہ قطرہ نچوڑنے کے بعد بدلے میں ان کو ایسی تہذیب سے نواز رہی ہے جس میں اخلاقی اقدار نام کو نہیں۔ مغرب کا پرنٹ میڈیا ہو یا الیکٹرانک میڈیا، حکومتیں ہوں یا حکومتوں کو مٹھی میں جکڑنے والے سرمایہ دار، بدلے میں وہ غریب اقوام کو مفاد پرستی اور نفس پرستی سکھارہے ہیں۔ صورتحال یہ ہے کہ ایک خود مغربی ممالک میں کسی یونیورسٹی کے پرنسپل کی سالانہ تنخواہ اتنی نہیں جتنی ایک ماڈل گرل کی ہفتے کی آمدنی۔ ایک اداکار یا گلوکار ایک تقریب سے اتنا کمالیتا ہے جتنا ایک ماہر تعلیم دانش ور مہینے بھر میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ دنیا سے سب کچھ لے کر بھی بدلے میں اسے یہ کچھ دینا سفلہ پن کی وہ بدترین صورت ہے جس نے پوری انسانیت کو دردناک المیے سے دوچار کر رکھا ہے۔ مادّیت پرستی کے علمبرداروں کی گرفت دیکھیے کہ ایشیائی ممالک نے آئی ایم ایف کی اس جکڑ بندی کے مقابلے کے لیے بینک بنانا چاہا (جس کے مقاصد و نتائج خدا جانے کیا ہوں گے) تو چین کے پڑوس میں کوریا نے اس میں شمولیت کے بجائے مغرب کی غلامی میں رہنے کو ترجیح دی۔

اب جنس پرستی کو ذرا دیکھ لیجیے۔ انسان کے اندر اس کا منہ زور جذبہ قدرتی طور پر پایا جاتا ہے۔ اسلام اور ہر آسمانی مذہب اس کو لگام دینے اور معقول حدود کا پابند رکھنے پر زور دیتا ہے، جبکہ مغرب انسان کو ورغلا ورغلاکر اس کی نفسانی خواہشات کو اُبھارتا اور انہیں اتنا بے لگام کر رہا ہے کہ حیوان پیچھے رہ جائیں۔ آج کے انسان کو پیٹ اور شرم گاہ کی بھوک مٹانے کے لیے کچھ بھی کرنے پر آمادہ کیا جارہا ہے۔ اور بات یہاں تک آپہنچی ہے کہ انسان کو حاصل دو عظیم شرف یعنی نسب اور عفت مغرب میں عنقا ہوچکے ہیں۔ وہاں باپ کے خانے میں ماں کا نام لکھا جارہا ہے اور عفت و عصمت نام کی چیز قطعاً معدوم ہوچکی ہے۔ اسلام نے ان دو عظیم و قابل فخر صفات کے چراغ کو مغرب کی شیطانی پھونکوں کے علی الرغم محفوظ رکھا ہوا ہے۔ مشرقی یا اسلامی معاشروں میں یہ چیز جو گوہر انسانیت ہے، تاحال محفوظ و باقی ہے۔

اہلِ مغرب اس پر فخر کرتے نہیں تھکتے کہ تمام جدید ایجادات کا سہرا ان کے سر بندھتا ہے، لیکن اس بات پر انہیں شرم سے پانی ہوجانا چاہیے کہ ان تمام ایجادات کا غلط استعمال بھی اسی نے انسان کو سکھایا ہے۔ اس وقت زمین پر جتنے بھی گناہ ہورہے ہیں، چاہے وہ سود اور جوئے جیسے مالیاتی جرائم ہوں یا شراب اور زنا جیسے سماجی جرائم، ان سب کے پھیلانے میں سب سے زیادہ دخل مغرب اور اس کی ایجادات کا ہے۔

مسلمان اس وقت بنی نوع انسان میں وہ واحد گروہ ہیں جو نہ صرف خالق کائنات کی عبادت سب سے زیادہ کرتے ہیں، بدنی عبادت بھی اور مالی عبادت بھی، بلکہ شیطان اور شیطانی طاقتوں کے آگے سب سے بڑی اور واحد رکاوٹ اس وقت مسلمان ہیں۔ ورنہ مغرب کی طرح مشرق کے غیرمسلم بھی مادّیت پرستی اور شہوت پرستی کے سیلاب میں بہہ چکے ہیں۔ باطل کو چونکہ بقا نہیں، خالق کائنات نے اس کی تقدیر میں فنا اور زوال لکھا ہے، اس لیے کمیونزم و سوشلزم کی طرح سیکولرازم اور کیپٹل ازم بھی اپنی آخری حد تک پہنچنے کے بعد زوال کی ڈھلان پر اوندھے منہ لڑھکے گا۔ مغرب کے گھڑے ہوئے مادّیت پرستی اور لذت پرستی کے بت فطرت سے ہارکر آخرکار پاش پاش ہوجائیں گے۔ جب عصر حاضر کے یہ لات و منات ڈھائے جائیں گے… اور عنقریب دنیا ان سے بیزار ہوکر انہیں ڈھادے گی… تو پھر آج کے پُرفتن دور میں پائے جانے والے اہلِ ایمان کا امتحان شروع ہوگا کہ وہ تھکی ہاری انسانیت کو حق کی دعوت سے روشناس کرواتے ہیں یا پھر مغرب کے فتنہ پردازوں کو موقع دیتے ہیں کہ وہ کوئی اور بت کسی اور نام سے گھڑلیں۔ بت پرستوں کے مقابلے میں بت شکنوں کا یہ امتحان کسی وقت بھی شروع ہوسکتا ہے۔ اللہ کرے کہ ہم اس وقت کے لیے پہلے سے تیاری کرچکے ہوں۔

Tricks and Tips