
کیا یہ وہی لوگ نہیں ہیں جنہوں نے اپنی روح شیطان کے حوالے کردی ہے۔ اس ملک اور اسلام کے درمیان حائل یہ سیکولر حضرات کووّں کی طرح کائیں کائیں کرتے ہوئے، بے محابا جھوٹ شعار کرتے ادھورے لوگ۔ پرویزرشید وفاقی وزیراطلاعات جن کے نمائندے۔ ایسا نہیں کہ وہ علم نہیں رکھتے ، وہ آگاہ ہیں مگر روح مردہ، عقل پراگندہ اور مادی مفاد ہی اصلِ حیات ہوں تو جھوٹ اس طرح گرفت کرتا ہے کہ عادت بن جاتا ہے۔
چراغ حسن حسرت نے ’’زرنیخ کے خطوط‘‘ اس عنوان مریخ کے ایک ایسے باشندے کا احوال رقم کیا ہے جو زمین کی طرف آنکلا ۔ وہ کرہ ارض سے اپنے دوست توبیخ کو مریخ خط لکھتا ہے ’’میں سمجھتا تھا کہ کرہ ارض کے باشندے مجھے کوئی نئی بات سکھانہیں سکتے لیکن اے توبیخ میں اپنی رائے بدلنے پر مجبور ہوگیا ہوں کیونکہ ان کے پاس جھوٹ ہے جو ہمارے پاس نہیں۔ دراصل ہم نے کبھی غور ہی نہیں کیا کہ ہم جھوٹ بولنے پر بھی قدرت رکھتے ہیں۔ اس میں ایک ناقابل بیان لذت ہے۔ ایک حیرت انگیز آسودگی ہے۔ قسم ہے اس نیل گوں وسعت کی کہ ترامید (مریخ) کی وادیوں میں کوئی پھل ایسا نہیں جو شیرینی میں جھوٹ کا مقابلہ کرسکتا ہو‘‘۔ روحانی تربیت سے محرومی ہو، جھوٹ عادت ہو اور آدمی وزیر بھی ہو تو پرویز رشید بن جاتا ہے۔ شعائر اسلام کا مذاق اڑانے اور لاپرواہی برتنے میں نفس کے سپرد۔ ختم المرسلین آقاصلی اللہ علیہ وسلم اپنے رب سے درخواست گزار ہوا کرتے تھے:
’’اے زندہ اور ہمیشہ رہنے والے! میں تیری رحمت سے مدد چاہتا ہوں۔ میرے سارے کاموں کو درست فرمادے اور مجھے پلک جھپکنے کے برابر بھی اپنے نفس کے حوالے نہ کر۔‘‘
پرویزرشید کہتے ہیں ’’وہ چاہتے ہیں کہ وہ کتاب نہ چھپے جو آپ تحریر کرتے ہیں۔ وہ فکر عام نہ ہو جس کی شمع آپ جلاتے ہیں۔ لوگوں کو پڑھنے کے لیے کتاب دی جائے تو کونسی دی جائے، موت کا منظر عرف مرنے کے بعد(قہقہہ)۔‘‘ کب اہل مدرسہ کسی لکھاری شاعر یا فنون لطیفہ کے ماہر کی کتاب یا فکر کی راہ میں حائل ہوئے۔ یہاں ہرطرح کے افکار اور نظریات کے لوگ فعال اور سرگرم ہیں۔ کب اہل مدرسہ نے قدغن لگائی۔ کب اور کسے مجبور کیا گیا کہ موت کا منظر کتاب پڑھے۔ بخدا یہ استہزاء ہے۔ ایک ایسی کتاب کا مذاق بدمستی سے بھی آگے کی چیز ہے جس میں موت اور مابعد کا بیا ن ہے، جنت کا روشن اور جہنم کا خوفناک چہرہ دکھایا گیا ہے۔ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
’’جب سے اللہ تعالی نے انسان کی تخلیق کی ہے اس وقت سے آدم کی اولاد کوموت سے زیادہ تلخ تجربہ کسی چیز کانہیں ہوا۔ تاہم موت آئندہ پیش آنے والے مراحل سے آسان ہے۔ وہ ایسے خوف سے گزریں گے کہ ان کا جسم پسینے میں نہاجائے گا اور پسینے کی دھاریں ان کی ٹھوڑیوں کے گرد جمع ہوجائیں گی۔ پسینے کا ایسا سمندر بن جائے گا کہ جہاز اس پر تیر سکیں۔‘‘
خطاب کے جلیل القدر فرزند عمرفاروق رضی اللہ عنہ مصر سے وسطی ایشیاء تک وسیع علاقے پرخلیفہ تھے۔ ایک مرتبہ گہری آہ بھرتے ہوئے دعا کی: ’’اے اللہ مجھ میں مزید ذمہ داری نبھانے کی سکت نہیں ہے۔ میری جان لے لے اور اپنی بارگاہ میں بلالے‘‘۔ وہ دنیا کی زندگی پر موت کے بعد کی زندگی کو ترجیح دیتے تھے۔
سعد ابن ربی رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں بری طرح زخمی ہونے کے بعد آخری سانسیں لے رہے تھے۔ محمد ابن مسلم عالی مرتبت آقائے دوجہاں صلی اللہ علیہ وسلم کا سلام لے کر آئے۔ آہستہ سے جواب دیا: ’’نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو میرا سلام کہنا۔ خدا کی قسم احد پہاڑ کے پیچھے سے مجھے جنت کی خوشبو آرہی ہے۔‘‘
انسان مرنے کے بعد کہاں جاتا ہے؟ موت کیا ہے؟ کیا اس دنیا سے ماورا بھی کوئی دنیا ہے؟ عقل کی محدودیت ان سوالوں کا جواب دینے سے قاصر ہے۔ اس موقع پر انبیاء جوالہام کا واحد ماخذ ہیں بھٹکتی عقل کا ہاتھ تھام لیتے ہیں۔ آگاہ کرتے ہیں موت کی کیفیات اور مرنے کے بعد کے احوال سے۔ پرویز رشید نے جس کتاب کی ہنسی اڑائی ہے۔ اس کا ماخذ اور مرکز انبیاء کا الہام ہے۔
کمزور باتوں کو بنائے استدلال ٹہراتے ہوئے دینی مدارس پر تنقید، انہیں جہالت کی فیکٹریاں قرار دینا اور ان کے نصاب کو نفرت اور جہالت کی تعلیم کہنا بجائے خود جہالت ہے۔ نفرت فرقہ واریت اور شدت پسندی کا فروغ نصاب تعلیم کے حوالے سے وہ کمزور ترین الزام ہے جو سیکولر شدت پسند اور بیرونی عناصر دینی مدارس پر لگاتے رہتے ہیں۔ برصغیر ہی نہیں وسطی ایشیاء اور مغربی ممالک میں پھیلے ہوئے لاتعداد دینی مدارس فقہ حنفی سے منسلک دیوبندی ہوں یا بریلوی ان کے درس نظامی کی کتابوں کا جائزہ لیجئے۔ حقیقت واضح ہوجائے گی۔
۱۔ صحاح ستہ کے مصنفین میں سے کوئی بھی حنفی مسلک سے تعلق نہیں رکھتا۔ صرف طحاوی حنفی المسلک ہیں جن کی طحاوی صحاح ستہ میں شمار بھی نہیں کی جاتی۔
۲۔ تفسیر بیضاوی، تفسیر جلالین کی مصنفین شافعی المسلک ہیں۔
۳۔ تفسیر زمخشری کے مصنف معتزلی عقیدے کے ہیں۔
۴۔ شرح تہذیب کے مصنف ایران کے عبداللہ بن حسن اصفہانی شیعہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں۔
۵۔ المنجد عربی کے مصنف لوئیس عیسائی ہیں۔
۶۔ المعجم المفہرس کے مولف مستشرقین میں سے ہیں۔
۷۔ فقہ کی سب سے بڑی زیردرس کتاب ’’ہدایہ‘‘ کا حاشیہ ’’الدرایہ‘‘ ہے جو حافظ ابن حجر عسقلانی کی تصنیف ہے جو شافعی مسلک سے تعلق رکھتے تھے۔
جو نصاب تعلیم مختلف مکاتب فکر کے علماء کی تصانیف پر مشتمل ہے اس سے فرقہ واریت تنگ نظری اور تعصب کا فروغ کیسے ممکن ہے۔ بہت سی اندرونی اور بیرونی قوتیں نسلی، قومی، مذہبی، گروہی اور فکری اختلافات کو ہوا دے کراس معاشرے کا شیرازہ بکھیرنے کی کوشش کررہی ہیں جبکہ آپ ہر اعتبار سے تحقیق کرکے دیکھ لیں ان عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ دینی حلقے ہیں۔ جہاں تک فرقہ پرست تنظیموں کا تعلق ہے دینی مدارس کے اندر عمومی فضا فرقہ پرست تنظیموں کے حق میں نہ تھی، نہ ہے اور نہ ہوگی۔ سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم قرار دیتے ہیں ’’دنیا ملعون ہے اور جو کچھ دنیامیں ہے وہ ملعون ہے۔ مگر اللہ کا ذکر اور جو چیزیں اللہ سے متعلق ہیں اور عالم اور طالبعلم‘‘۔ اللہ کا ذکر، اللہ سے متعلق چیزیں، عالم اور طالبعلم دینی مدارس اس رحمت کی تجسیم ہیں۔
علم کے دو ماخذ ہیں جن سے انسانیت سیراب ہوتی ہے۔ ایک انسانی عقل جس سے تسخیر کائنات کے دروازے کھلے۔ سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں حیرت انگیز کمالات سامنے آئے۔ معلوم کی دنیاوسیع ہوئی۔ اس کا اعتراف ضروری ہے۔ علم کا ایک اور اہم ترین ماخذ الہام ہے۔ انبیاء کا علم، جس کا نکتہ عروج اور اختتام ختم المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ آئن اسٹائن ان دو کا تقابل کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’معاشرتی زندگی کی گتھیاں تنہا عقل کی مدد سے نہیں سلجھ سکتیں۔ سائنس کی تحقیقات اکثر اوقات نوع انسانی کے لیے بڑی مہلک ثابت ہوئی ہیں۔ ان سے انسان کی طبعی زندگی کو آرام اور عشرت تو ضرور مل گئی مگر اس کی داخلی دنیا میں عجیب قسم کا کرب و اضطراب پیدا ہوگیا۔ وہ اپنے میکانکی ماحول کا غلام بن گیا اور اس سے بھی زیادہ یہ کہ اسے خود اپنی تباہی کے لیے بڑے بڑے ہلاکت آفریں سامان مل گئے۔ عقل صرف خدمت کرسکتی ہے۔ رہنمائی نہیں کرسکتی۔ صداقت جو بذریعہ وحی ملتی ہے اس کی بنیاد عقل پر نہیں ہوتی لیکن وہ تجربہ کی کسوٹی پر پوری اترتی ہے۔‘‘ مسلمانوں کے باب میں اس کی اہمیت جدا ہے۔ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں کتنی ہی کوششیں کرلیں، کتنی ہی کالج اور یونیورسٹیاں قائم اور نئی ایجادات کرلیں لیکن مسلمانوں کی ترقی عروج اور نشاط ثانیہ اسلام میں ہے۔ دینی مدارس میں جس کا درس دیا جاتا ہے۔ قیصر و کسری کا مقابلہ ان کے برابر مادی ترقی پیدا کرکے نہیں بلکہ اسلام سے کیا گیا تھا۔
پرویز رشید مزید کہتے ہیں ’’لاؤڈاسپیکر بھی ان کے قبضہ میں دے دو اور دن میں ایک دفعہ کے لیے نہیں بلکہ پانچ دفعہ کے لیے دیدو۔‘‘ معلوم نہیں انہیں اعتراض اذان کے لیے لاؤڈ اسپیکر کے استعمال پر ہے یا ان موذن حضرات پر جن کے قبضے میں بوقت اذان لاؤڈاسپیکر ہوتا ہے۔ جن کے بارے میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے ’’قیامت کے د ن اذان دینے والے سب سے بلند مقام پر ہونگے اتنے کہ لوگوں کو دور سے نظر آجائیں گے۔‘‘ عالم روحانی کے کتنے باب ہیں جو اذان کی آواز سے قلب و نظر میں رقم ہوتے ہیں۔ یہ اذان کا نغمہ سرمدی تھا کہ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ برسوں بعد مدینہ تشریف لائے پورا مدینہ ان کی دید کو باہر نکل آیا۔ امام حسن اور حسین رضی اللہ تعالی علیھم اجمعین نے اذان کی درخواست کی تو تڑپ اٹھے۔ مدینے کی فضاؤں میں انکی اذان کی آواز گونجی تو پورا مدینہ بے تابی سے پچھاڑیں کھانے لگا۔ لوگ روتے روتے بے حال ہوگئے۔ کونسا عہد کونسا زمانے ہے جب مسلمانوں کی بستیاں اس کیفیت سے خالی رہی ہوں۔ چند برس پیشتر استنبول کی ایک مسجد میں آٹھ برس بعد اذان کی آواز گونجی تو ایک لمحے کے لیے جیسے وقت ٹہر گیا ہو۔ اس کے بعد کون تھا جو دیوانہ وار اذان کی آواز کی طرف نہیں دوڑرہا تھا۔ مسجد کے میناروں سے حی علی الصلاۃ حی علی الفلاح کی صدائیں رفعت و بلندی کے نئے آفاق کھولتی ہیں۔ تمام سیکولر یاد رکھیں ان کی بکواس کی تو حقیقت کیا ہے زمانے بھرکی تمام طاقتیں بھی یکجا ہوجائیں تو اسلام کے آثار کو نہ تو مٹاسکتی ہیں اور نہ دھندلا کرسکتی ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭۔۔۔٭