امپورٹڈ مصنوعات اور ہماری ذمہ داری
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے زندگی گزارنے کے لئے دینِ اسلام کو بطورِدین فطرت منتخب فرمایا ہے ۔
ارشادِباری تعالیٰ ہے:
(الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلام دیناً‘‘(سورۃ مائدۃ آیت نمبر ۳)
ترجمہـ’’آج میں نے تمہارے لئے تمہار ا دین مکمل کردیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کردی اور آپ کے لئے اسلام کو بطور دین پسند کیا ۔
اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جس کے احکامات کا خلاصہ دو باتیں ہیں ۔
۱۔ حلا ل اور جائز امور کی پابندی کرنا
۲۔ حرام اور ناجائز امور سے اجتناب کرنا ۔
گویا مسلمان کا منھج ِحیات (The way of life)ہی یہی ہے کہ وہ حلال کو اختیار کرے اور حرام سے بچے ۔
آیاتِ
قرآنیہ اور احادیث نبویہ میں حلال و حرام سے متعلق بہت بڑا ذخیرہ ہے جس
میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے حلال کھانے کی تاکید اور حرام سے بچنے کی
تلقین کی ہے ۔اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
’’اے
لوگوں جو چیزیں زمین میں موجود ہیں اس میں سے حلال پاک چیزوں کو کھائو اور
شیطان کے قد م بقدم مت چلو ، یقیناً وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (سورۃالبقرہ
ایت ۱۶۸)
ایک اور جگہ اپنے پیغمبروں کو اللہ تعالیٰ نے اس بات کا حکم دیا ہے کہ وہ پاک حلال کھائیں،ارشاد ہے:
’’اے پیغمبروں پاک چیزوں میں سے کھائو اور نیک عمل کرو ، یقیناً میں تمہارے اعمال سے خوب واقف ہوں‘‘ (المومنون:۵۱)
احادیث ِنبویہ میں بھی اکلِ حلال پر بہت زور دیا گیا ہے حدیث شریف کا مفہوم ہے ’’نماز کے بعد سب سے بڑا فریضہ حلال طلب کرنا ہے ‘‘ (الجامع الصغیرللسیوطی ۳/۱۳۱) ،ایک اور حدیث کا مفہوم ہے حلال طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے
قرآن
مجید میں حلال ذبیحہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح احکامات دیئے ہیں
۔حرام جانوروں کی پوری تفصیل اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ
عہدِ رسالت و عہد صحابہ میں ذبیحہ کا خصوصی اہتمام ہوتا تھا ۔اور ذبح ونحر
کی خدمت جلیل القدر صحابہ کرام کے ذمہ تھی ۔چناچہ اس سلسلے میں حضرت زبیر
،عمرو بن العاص ، عامر بن کریر اور خالد بن اسید بن ابی العیص الا موی رضی
اللہ عنھم کا نا م بطورِ خاص لیا جاتا ہے ۔(المضل لابن الحاج الناس المالکی ،فتاوی بینات:۵۰۵/۴)
ایک
حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ بات بہت محبوب ہے کہ وہ اپنے
بندے کو حلال کی طلب میں تھکا ماندہ دیکھے (جامع صغیر ۱/۲۸) حلا ل کی اس
ترغیب کے ساتھ ساتھ قرآن و حدیث میں حرام کھانے کی نحوست بھی جگہ جگہ بیان
کی گئی ہے ،اللہ کے نبی کے ارشاد کا مفہوم ہے :
’’حرام کا ایک لقمہ کھانے والے کی چالیس روز تک نماز و دعائیں قبول نہیں ہوتیں‘‘(جامع الاحادیث لسیوطی :۲۰/۵۵)
مارکیٹ میں بننے والی چیزیں اور ہماری ذمہ داری :
مذکورہ
آیات ِ قرآنیہ اور احادیث نبویہ سے اندازہ ہو تا ہے کہ شریعت میں حلال
کھانے اور حرام سے بچنے کی کتنی اہمیت ہے؟ لہذا بحیثیت مسلمان یہ ہمارا
دینی فریضہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی استعمال کر رہے ہیں اس میں حلال و حرام کی
تحقیق کریں ،ماضی قریب میں جب تک مسلمان اپنے ہاتھوں کی بنائی ہوئی خالص
چیزیں استعمال کرتے تھے تو حلال حرام کے حوالے سے اتنا بڑا مسئلہ نہ تھا
۔لیکن عصرِ حاضر میں جدید سائنس و ٹیکنالوجی کی بے انتہا ترقی کی وجہ سے اس
میدان میں بھی ایسا انقلاب آیا ہے کہ ایک ہی چیز کو کئی کئی ذرائع سے
بنایا جا رہا ہے ،اور بنانے والوں میں چونکہ مسلم و غیر مسلم ہر طرح کے لوگ
شامل ہیں اس لئے حلال و حرام کی تمیز کے بغیر ہر طرح کے ذرائع سے چیزیں
تیار ہو رہی ہیں اور کسی فرق کے بغیر مسلم ممالک میں درآمد بھی کی جارہی
ہیں ،دوسری طرف المیہ یہ ہے کہ مسلمان بالخصوص مالدار طبقہ اپنے ملک کی
قومی اور دیسی چیزیں استعمال کرنے کی بجائے غیر مسلموں کی بنائی ہوئی
امپورٹڈ چیزیں استعمال کرنے کو ترجیح دیتے ہیں اس صورت ِحال میں شرعی
اعتبار سے ان چیزوں کی حلت و حرمت اور مسلمانوں کے لئے ان کے استعمال کا
مسئلہ انتہائی اہم اور قابلِ غور ہے ۔
یہاں
ہم ان چیزوں کے استعمال سے متعلق چند ایسے اُصولی پہلوئوں کی وضاحت کرتے
ہیں ، جن سے ان مصنوعات کے حوالے سے بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داریو ں کا
تعین ہو ۔
۱)
علماء فرماتے ہیں کہ گوشت میں اصل حکم حرمت کا ہے ،اس لئے کھانے پینے کی
وہ تمام اشیاء جن میں کسی بھی طرح سے کسی بھی قسم کے حیوانی اجزاء (Animal
ingredients) شامل ہوں ان میں اس بات کی تحقیق و یقین کر لینا ضروری ہے کہ
جن جانوروں سے یہ اجزاء حاصل کئے گئے ہیں وہ حلا ل جانور ہیں یا حرام ،اگر
حلا ل جانور ہیں تو ان کو شرعی طریقہ پر ذبحہ کیا گیا ہے یا نہیں ؟اس تحقیق
کے بغیر ایسی چیزوں کا کھانا پینا جائز نہیں ۔
واضح
رہے کہ باہر سے آنے والے حرام مصنوعات پر بھی بعض اوقات حلال لکھا ہوتا ہے
۔ مگر اس بارے میں یہ بات ذہین نشین کر لینا ضروری ہے کہ غیر مسلموں کی
طرف سے بنائی جانیوالی چیزوں پر انہیں کی طرف سے لکھے گئے اس لفظ کا کوئی
اعتبار نہیں اور مسلمانوں کے لئے اس کا استعمال کرنا جائز نہیں ۔ہاں البتہ
اگر کسی مستند مسلمان تصدیقاتی ادارے (Halaal certification body) نے اس کی
تصدیق کی ہو اور ان کی طرف سے اس کا مہر و لوگو (logo) ان مصنوعات پر لگا
ہو توایسی صورت میں ایسی مصنوعات کو استعمال کرنے کی اجازت ہے۔
۲) خالص قدرتی نباتاتی اشیاء مثلاً پھل سبزیاں اناج وغیرہ جب اپنی اصلی حالت میں ہوں تو ان میں اتنی تحقیق کی ضرورت نہیں ۔
۳)
غیر حیوانی اجزاء سے تیار کی جانے والی کھانے پینے کی ایسی ریڈی میڈ
مصنوعات جن میں حیوانی اجزاء تو استعمال نہیں ہوتے لیکن ان کی تیاری کے عمل
(Process) میں انسانی صنعت کا عمل دخل ہو تا ہے اُن کا استعمال اگرچہ
اصولی طور پر جائز ہے ،تاہم اُن میں بھی چونکہ نجاست شامل ہونے کا احتمال
ہوتا ہے ۔اس لئے ایسی مصنوعات کے بارے میں بھی نجاست کے احتمال کی وجہ سے
احتیاط اسی میں ہے کہ ایسی مصنوعات کے استعمال سے بھی حتی الامکان بچنے کی
کوشش کی جائے۔
یہ
ہے کہ باہر سے آنے والی کھانے پینے کی تیار اشیاء استعمال کرنے سے پہلے ان
کے حلال ہونے کااطمینان کر لینا ضروری ہے ۔اس سلسلے میں بہتر بلکہ ضروری
یہ ہے کہ اس طرح کی چیزیں استعمال کرنے سے پہلے مستند علمائے کرام سے مشورہ
کیا جائے ۔از خود کسی چیز کے حلال یا حرام ہونے کا فیصلہ نہ کیا جائے۔