ترکی

مصطفی کمال اتاترک 19 مئی 1881 ؁ء میں یونان کے شہر تھ سیالونیکی میں پیدا ہوا۔کیڈٹ سکول میں تعلیم حاصل کی اور 1905 ؁ء میں وہاں سے سٹاف کیپٹن بن کے نکلا ۔ زمانہ طالب علمی میں ہی مصطفی کمال ایک بہترین مقرر ہوا کرتا تھا۔ خلیفہ عبدالحمید کی حکومت کے خلاف سر گرمیوں کی وجہ سے پہلی مرتبہ گرفتار ہو ا۔رہائی کے بعد فوج میں ملازمت کی اسی دوران خفیہ تنظیم جمعیت اتحاد و ترقی سے روابط قائم کئے ۔ اطالیہ اور بلقان کے محازوں پر فوجی خدمات سرانجام دیں ۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں اور فرانسیسیوں کے خلاف آبنائے فاسفورس پر بہترین مدافعت کی ۔ اسی کامیابی پر جنرل کے عہدے پر ترقی ملی ۔ 1916 ؁ء میں روسی افواج کو شکشت دے کر ترکی کا مقبوضہ علاقہ آزاد کروایا ۔ خلیفہ وحید الدین کے دور حکومت میں ملک میں طوائف الملکی پھیلی تو کمال اتا ترک کو فوج کا انسپکٹر جنرل بنادیا گیا ۔ اپنی پوزیشن سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کمال اتاترک نے اپنے ہم خیال افراد کو ساتھ ملایا اور ایک متوازی حکومت قائم کر لی ۔ 1920 ؁ء میں کمال اتاترک انگورہ میں ترکی کی پہلی اسمبلی کا صدر منتخب ہوا ۔ اکتوبر 1923 ؁ ء میں ترکی سے خلافت کے خاتمے کا اعلان ہوا اور ملک کو جمہوریہ قرار دیتے ہوئے مصطفی کمال ترکی کے پہلے صدر بن گئے ۔ صدارت کا منصب سنبھالتے ہی اتاترک نے ملک میں اصلاحات نافذ کر دیں ۔ ان میں مذہب سے زیادہ قومیت پر توجہ دی گئی ۔ ترکی اسی وجہ سے طویل عرصے تک عالم اسلام سے کٹا رہا ۔ 1934 ؁ ء میں قوم نے مصطفی کمال کو اتاترک (قوم کا باپ)کا خطاب دیا ۔10نومبر 1938 ؁ء کو اپنے انتقال کے و قت کمال اتا ترک نے بلا شبہ جدید ترکی کی بنیاد رکھ دی تھی۔
میں 18 مئی کی شام استنبول کے اتاترک ایئر پورٹ پرتھا۔ ہوائی جہاز کی لینڈنگ کے وقت میں نے دیکھا کہ پورے شہر کی ہر عمارت پر ترکی کا قومی پرچم لہرارہا تھا۔ میں نے اپنی عقب والی نشست پر بیٹھے ترکی کے شہری سے پوچھا کہ کیا حکومت کی طرف سے قومی پرچم لہرانے کی احکامات ہیں یا کوئی ترکی کا قومی دن وغیرہ ہے ۔ ترکی شہری نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہاکہ نا تو ایسے کوئی احکامات ہیں اور نہ ہی کوئی قومی دن ہے بلکہ ہر شخص انفرادی طور پر یہ اہتمام کر تاہے کیونکہ ’’ہم لوگ محب وطن ہیں ‘‘۔5343 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا استنبول تقریباًڈیڑھ کروڑ افراد کی کفالت کرتے ہوئے آبادی کے اعتبار سے دنیا کا پانچواں اور ترکی کا سب سے بڑا شہر ہے ۔ ترکی نے گزشتہ ایک دہائی میں جتنی ترقی کی ہے اس کا نمونہ استنبول کی ہر سڑک اور ہر عمارت میں صاف دکھائی دیتاہے یہ شہر سیاحوں سے بھرا رہتا ہے ۔ لوگ خوشحال ہیں اور امن وامان مثالی ہے ۔ استنبول آبنائے فا سفورس کے جنوبی علاقے میں دونوں جانب واقع ہے اس اعتبار سے یہ دو برے اعظموں میں واقع دنیا کا واحد شہر ہے۔ استنبول کا مغربی حصہ یورپ جبکہ مشرقی حصہ ایشیاء میں ہے۔ اس قدرتی تقسیم نے اس شہر کو سیاحوں کے لیے پرکشش بنادیا ہے ۔ حکومت اس اہمیت سے آگاہ ہے لہذا سیاحوں کو ہر قسم کی سہولیات فراہم کی جاتی ہیں ۔ استنبول کے توپ خانے عجائب گھر میں نبی پاک ﷺ اور خلفائے راشدین کی تلواروں کے ساتھ حضرت امام حسین ؑ اور حضرت فاطمہ ؑ کے کپڑے بھی موجود ہیں ۔ مزید نعلین مبارک اور موئے مبارک کے ساتھ ساتھ دیگر کئی اور نوادرات بھی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بنتے ہیں۔
ترکی کا شہر قونیہ اناطولیہ کے وسط میں واقع ہے ۔ تقریباً11 لاکھ آبادی والے اس شہر کی وجہ شہرت مولانا جلال الدین رومی کاعالیشان مزار ہے ۔ یہ شہر بھی استنبول کی طرح پورا سال سیاحتی سرگرمیوں کا مرکز رہتاہے ۔ مولانا جلال الدین رومی اپنے دور کے اکابر علماء میں سے ایک تھے ۔ آپ فقہ اورمذہب کے بہت اعلیٰ پائے کے عالم تھے ۔ مگر آپ کی وجہ شہرت صوفی شاعری رہی ۔ مولانا کی شہرت سے مرعوب ہو کر سلجوتی سلطان نے آپ کو اپنے پاس بلوایا اور قونیہ جانے کی درخواست کی جومولاناروم نے قبول کی اور تقریباً30 برس تک قونیہ میں ہی تعلیم و تربیت میں مشغول رہے ۔ ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میں مولانا روم کے پیروکاروں کو ’’جلالیہ‘‘ کہا ہے محفل سماع کی بنیاد بھی مولانا روم ہی نے ڈالی ۔ لوگ اطراف میں بیٹھتے ہیں اور ایک شخص کھڑا ہو کر کچھ اس طرح دف کی موسیقی پر رقص کرتاہے کہ اس کے ہاتھ اور پاؤں ہلتے ہیں مگر وہ اپنی جگہ سے آگے یا پیچھے حرکت نہیں کرتا۔ مولانا روم کی شہر ہ ء آفاق تصنیف ’’مثنوی مولانا روم ‘‘ہے۔آپ قونیہ کے کسی بھی باز ار میں چلے جائیں وہاں مولاناروم کے حوالے سے اشیاء کی بھرمار ہوگی ۔ مولانا روم کی حکایات اور شاعری انتہائی خوبصورت خطاطی کے ساتھ موجود ہوگی ۔ محفل سماع کے حوالے سے گفٹ شاپس پر مختلف کھلونے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں ۔ بہت سے ہوٹلز اور ریستوران مولانا روم کے نام سے منسوب ہیں ۔

ترکی کا شہر ’’کاپاڈوکیا‘‘ایک طلسماتی شہر ہے ۔ اسے غاروں کی سلطنت بھی کہا جاتاہے ۔ سیاحتی اعتبار سے ترکی کا یہ سب سے مشہور اور دلچسپ علاقہ ہے ۔پہاڑوں اور غاروں کے بیچ بسا یہ شہر تقریباً2000 سال پرانا ہے۔ باہر سے اجاڑ سی ایک غار دکھائی دینے والی چٹان نما عمارت دراصل یا تو کوئی خوبصورت ہوٹل ہوتا ہے یا پھر کوئی پرانا گرجا گھر ۔ اس شہر کی پر اسراریت کو وہاں پر موجود سیاح اپنی رگوں میں دوڑتے ہوئے خوب محسوس کر سکتا ہے ۔ شام کے سائے جب ڈھلتے ہیں تو سورج کی روشنی چوٹیوں پر کسی آسیب کی طرح دکھائی دیتی ہے ۔ مگر شام ڈھلتے ہی برقی قمقموں سے جگمگاتی پہاڑ کی چوٹیاں واقعی دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں ۔
ترکی کے باسیوں سے جب بھی بات کرنے کا موقع ملا انہوں نے اس بات کا ثبوت دیا کہ وہ اپنے وطن سے بے پناہ محبت کر تے ہیں اسی طرح وہ کمال اتا ترک کے بھی مداح ہیں ۔تقریباً ہر گھر ،ہوٹل، دفتر یا کسی بھی پبلک پلیس پر کمال اتاترک کے فرمودات اور تصاویر جا بجا دکھائی دیتی ہیں ۔ ترکی کے عوام کی طیب اردوان سے محبت بھی تقریباًایک دہائی پر مشتمل ہے۔ مگر حال ہی میں حکومت خصوصاً طیب اردوان کی کابینہ اور فیملی کے حوالے سے کرپشن سکینڈل سامنے آئے ہیں ان کی وجہ سے عوام میں بے چینی پائی جاتی ہے ۔اس کے علاوہ ترکی کے عوام حکومت کیا خارجہ پولیسی سے بھی خائف ہیں۔ شام کے حوالے سے طیب اردوان کی پالیسی کی مخالفت میں اضافہ ہوتا جارہاہے ۔ترکی کے عوام چاہتے ہیں کہ حکومت دوسرے ممالک میں مداخلت سے زیادہ ترکی کی معیشت کی ترقی پر توجہ دے ۔میں نے ترکی کے مختلف شہروں میں شامی بچوں کو ٹریفک سگنلز پر بھیک مانگتے ہوئے دیکھا تو اَسی کی دہائی کے وہ افغانی بچے یاد آگئے جو پاکستان کے شہروں میں تھیلوں میں کوڑا کرکٹ بھرتے تھے اور ٹریفک سگنلز پرکھڑے ہو کر ہاتھ پھیلاتے تھے۔ طیب اردوان کو پاکستان کے حالات سے سبق سیکھنا چاہیے کہ عرب ممالک اور امریکہ نے اپنے مفادات کے لیے ہمیں افغانستان میں روس کے خلاف استعمال کیا اور بدلے میں ہمیں مہاجرین کلاشنکوف اور دہشت گردی جیسے ناسورملے ۔مجھے اندیشہ اس بات کا ہے کہ اگر اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی نہ کی تو ترکی میں بھی امن وامان کا حال پاکستان جیسا ہو سکتاہے ۔
ترکی بلا شبہ ایک ترقی یافتہ سیکولر ملک ہے ۔ ترکی کے لوگ خوش شکل اور صحت مند ہیں ۔ خواتین انتہائی پرکشش ہیں یہی پر کشش ترک خواتین دنیا بھر میں ’’بیلی ڈانس ‘‘ کی وجہ سے شہرت رکھتی ہیں ۔تقریباََ ہر سیاح ترکی جا کر اس سے لطف اندوز ضرور ہوتا ہے ۔ترکی کا موسم پاکستان کے مقابلے میں قدرے بہتر ہے ۔ خوراک بھی اچھی ہے ۔ ناشتے میں پنیر اور زیتون کثرت سے استعمال ہوتاہے۔ دوپہر کے کھانے کے بعد’ نمکین لسی‘ہر دلعزیز سافٹ ڈرنک ہے ۔ ترکی کے ہر شہر میں صفائی کا انتظام بہترین ہے ۔ شام ڈھلتے ہی لوگ ریستوران کے باہر سلیقے سے لگی کرسیوں پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ مکھیاں اور مچھر سمیت دیگر حشرات دیکھنے کو بھی نہیں ملتے ۔ مساجد پانچ وقت نمازیوں سے بھری رہتی ہیں اور انہی مساجد کے عقب میں شراب خانے ہمہ وقت آباد رہتے ہیں ۔ مغربی ممالک اور ترکی میں ایک واضح فرق موجود تھاکہ لندن ، پیرس اور نیویارک کے برعکس استنبول کی گلیوں میں رات کے وقت کسی بھی شخص کو کثرت مے نوشی میں مدہوش ہوئے الٹیاں کرتے نہیں پایا ۔ جبکہ ترک کسی بھی مغربی ملک سے کثرت مے نوشی میں کم نہیں ۔ایک حیران کن امر یہ بھی ہے کہ ترکی شاید وہ واحد ملک ہے جہاں پاکستان اور پاکستانیوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جا تا ہے۔

1 comment:

Inayatullah

Tricks and Tips