تل به په لار ده ميرنو سره زم
يمه پشتون ده پشتنو سره زم
كرمه دنياچي زه پشتون زلمي يم
د خپلو پيغلو حوصلو سره زم
وايي اغيار چي ده دوزخ ژبه ده

زه به جنت ته له پشتو سره زم
تولو قدرمنو ملگرو ته دي گراني پشتو دي ورزي مباركي مباركي مباركي درته وايم.
ظر یفا نہ
مشرق ميں اصول دين بن جاتے
لڑکياں پڑھ رہي ہيں انگريزي
شيخ صاحب بھي تو پردے کے کوئي حامي نہيں
يہ کوئي دن کي بات ہے اے مرد ہوش مند
!
تعليم مغربي ہے بہت جرات آفريں
کچھ غم نہيں جو حضرت واعظ ہيں تنگ دست
تہذيب کے مريض کو گولي سے فائدہ
!
انتہا بھي اس کي ہے؟ آخر خريديں کب تلک
ہم مشرق کے مسکينوں کا دل مغرب ميں جا اٹکا ہے
''
اصل شہود و شاہد و مشہود ايک ہے''
ہاتھوں سے اپنے دامن دنيا نکل گيا
وہ مس بولي ارادہ خودکشي کا جب کيا ميں نے
ناداں تھے اس قدر کہ نہ جاني عرب کي قدر
ہندوستاں ميں جزو حکومت ہيں
ممبري امپيريل کونسل کي کچھ مشکل نہيں
دليل مہر و وفا اس سے بڑھ کے کيا ہوگي
فرما رہے تھے شيخ طريق عمل پہ وعظ
ديکھے چلتي ہے مشرق کي تجارت کب تک
گائے اک روز ہوئي اونٹ سے يوں گرم سخن
رات مچھر نے کہہ ديا مجھ سے
يہ آيہ نو ، جيل سے نازل ہوئي مجھ پر
جان جائے ہاتھ سے جائے نہ ست
محنت و سرمايہ دنيا ميں صف آرا ہو گئے
شام کي سرحد سے رخصت ہے وہ رند لم يزل
تکرار تھي مزارع و مالک ميں ايک روز
اٹھا کر پھينک دو باہر گلي ميں
کارخانے کا ہے مالک مردک ناکردہ کار
سنا ہے ميں نے، کل يہ گفتگو تھي کارخانے ميں
مسجد تو بنا دي شب بھر ميں ايماں کي حرارت والوں نے

ايک گائے اور بکري

                                        ايک گائے اور بکري
  • بہت پرانے زمانے میں ایک بادشا ہ تھا ، اس کا کوئی بیٹانہ تھا ۔ جب وہ بوڑھا ہو گیا تو اسے فکر ہوئی کہ اس کے مرنے کے بعد تخت و تا ج کا وارث کون ہو گا ؟ لہذا ایک دن اس نے اپنے ملک میں اعلان کرایا کہ وہ ایک بچے کو گو د لینا چاہتا ہے جو بعد میں اس کے تخت و تا ج کا وارث ہو گا ۔ بچے کے انتخاب کے لیے یہ طریقہ بتا یا گیا کہ تمام ملک میں سے کچھ بچے منتخب کیئے گئے ہر بچے کو بیج دیا جا ئے گا ۔ جس بچے کے بو ئے ہوئے پو دے پر سب سے خوبصور ت پھول کھلے گا ، وہ بادشا ہ کا وا رث بنا دیا جا ئے گا ۔ سونگ چن نامی کا ایک لڑکا تھا ، اس نے بھی بادشاہ سے ایک بیج لیا اور اپنے گھر آکر ایک گملے میں بو دیا ۔ وہ ہر روز اسے پانی دیا کر تا تھا ، اسے امید تھی اس کے پودے پر سب سے زیا دہ خوبصور ت پھو ل کھلے گا ۔ دن گزر تے گئے مگر گملے میں سے کچھ بھی نکلا ۔ سو نگ چن کو بڑی فکر تھی۔ اس نے ایک اور گملا خریدا اور دور سے جا کر مٹی لایا اور اس بیج کو دو بارہ احتیا ط سے لگایا مگر دو مہینے گزر جانے پر بھی گملے میں سے کوئی پو دا نہ نکلا ۔ پلک جھپکتے میں پھو لو ں کی نمائش کا دن آ پہنچا ۔ سارے ملک کے بچے شاہی محل میں جمع ہوئے ۔ ہر ایک اپنے ہاتھو ں میں ایک گملا لیے ہوئے تھا ۔ گملو ں میں رنگ برنگے پھول کھلے ہوئے تھے ۔ وہ واقعی بڑے خوبصور ت تھے ۔ بادشا ہ پھو ل دیکھنے بچو ں کے پا س آیا۔ وہ ہر ایک خوبصورت پھول کو دیکھتا رہا مگر اسے کوئی پسند نہیں آرہا تھا ۔ چلتے چلتے اچانک اس کی نظر سونگ چن پر پڑی جو ایک خالی گملا لیے سر جھکائے کھڑا تھا ۔ سو نگ چن کے پاس جا کر رک گیا اور اس سے پو چھا : ”بیٹے ! تم خالی گملا لیے کیو ں کھڑے ہو ؟“ سونگ چن نے روتے ہوئے کہا : ” میں نے بیج گملے میں ڈالا تھا اور روزانہ پانی بھی دیتا تھا مگر اس سے اب تک کوئی پو دا نہیں اگا ، اس لیے خالی گملا لیے کھڑا ہو ں ۔“ بات سن کر باد شاہ ہنس پڑا ، اس نے کہا تم ایک سچے لڑکے ہو، مجھے اپنے تخت و تا ج کے لیے تم جیسے سچے لڑکے کی تلاش تھی ، تم ہی اس ملک کے با دشا ہ ہو گے ۔ “کیونکہ میں نے سب بچوں کو جو بیج دے تھے وہ ابلے ہوئے تھے ۔ خراب ہو چکے تھے اس لیے ان سے پودے کا اگنا ممکن ہی نہیں تھا ۔ دوسرے بچے اس لیے خوبصورت پھول کھلا نے میں کامیا ب ہو گئے تھے کہ انہوں نے اس خراب کی جگہ اچھے بیج بو ئے تھے مگر سونگ چن نے یہ غلط حرکت نہیں کی تھی اور جھو ٹ سے کا م نہیں لیا تھا ، لہذا اسے سچائی کا انعام مل گیا ۔

Tricks and Tips