Image result for ‫کتے‬‎                                             کتے                      ​

علم الحیوانات کے پروفیسروں سے پوچھا۔ سلوتریوں سے دریافت کیا۔ خود سرکھپاتے رہے۔ لیکن کبھی سمجھ میں نہ آیا کہ آخر کتوں کافائدہ کیا ہے؟ گائے کو لیجئے دودھ دیتی ہے۔ بکری کو لیجئے، دودھ دیتی ہے اور مینگنیاں بھی۔ یہ کتے کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے کہ کتا وفادار جانور ہے۔ اب جناب وفاداری اگر اسی کا نام ہے کہ شام کے سات بجے سے جو بھونکنا شروع کیا تو لگاتار بغیر دم ليے صبح کے چھ بجے تک بھونکتے چلے گئے۔تو ہم لنڈورے ہی بھلے، کل ہی کی بات ہے کہ رات کے کوئی گیارہ بجے ایک کتے کی طبیعت جو ذرا گدگدائی تو انہوں نے باہر سڑک پر آکر طرح کا ایک مصرع دے دیا۔ ایک آدھ منٹ کے بعد سامنے کے بنگلے میں ایک کتے نے مطلع عرض کردیا۔ اب جناب ایک کہنہ مشق استاد کو جو غصہ آیا، ایک حلوائی کے چولہے میں سے باہر لپکے اور بھنا کے پوری غزل مقطع تک کہہ گئے۔ اس پر شمال مشرق کی طرف ایک قدر شناس کتےنے زوروں کی داد دی۔ اب تو حضرت وہ مشاعرہ گرم ہواکہ کچھ نہ پوچھئے، کم بخت بعض تو دو غزلے سہ غزلے لکھ لائے تھے۔ کئی ایک نے فی البدیہہ قصیدے کے قصیدے پڑھ ڈالے، وہ ہنگامہ گرم ہوا کہ ٹھنڈا ہونے میں نہ آتا تھا۔ہم نے کھڑکی میں سے ہزاروں دفعہ "آرڈر آرڈر" پکارا لیکن کبھی ایسے موقعوں پر پر دھان کی بھی کوئی بھی نہیں سنتا۔ اب ان سے کوئی پوچھئے کہ میاں تمہیں کوئی ایسا ہی ضروری مشاعرہ کرنا تھا تو دریا کے کنارے کھلی ہوا میں جاکر طبع آزمائی کرتے یہ گھروں کے درمیان آکر سوتوں کو ستانا کون سی شرافت ہے۔

اورپھر ہم دیسی لوگوں کے کتے بھی کچھ عجیب بدتمیز واقع ہوئے ہیں۔ اکثر تو ان میں ایسے قوم پرست ہیں کہ پتلون کوٹ کو دیکھ کر بھونکنے لگ جاتے ہیں۔ خیر یہ تو ایک حد تک قابل تعریف بھی ہے۔ اس کا ذکر ہی جانے دیجیئے اس کے علاوہ ایک اور بات ہے یعنی ہمیں بارہا ڈالیاں لے کر صاحب لوگوں کے بنگلوں پر جانے کا اتفاق ہوا، خدا کی قسم ان کے کتوں میں وہ شائستگی دیکھی ہے کہ عش عش کرتے لوٹ آئے ہیں۔ جوں ہی ہم بنگلے کے اندر داخل ہوئے کتے نے برآمدے میں کھڑے کھڑے ہی ایک ہلکی سی "بخ" کردی اور پھر منہ بند کرکے کھڑا ہوگیا۔ہم آگے بڑھے تو اس نے بھی چار قدم آگے بڑھ کر ایک نازک اور پاکیزہ آواز میں پھر "بخ" کردی۔ چوکیداری کی چوکیداری موسیقی کی موسیقی۔ ہمارے کتے ہیں کہ نہ راگ نہ سُر۔ نہ سر نہ پیر۔ تان پہ تان لگائے جاتے ہیں، بےتالے کہیں کے نہ موقع دیکھتے ہیں، نہ وقت پہنچانتے ہیں، گل بازی کيے جاتے ہیں۔ گھمنڈ اس بات پر ہے کہ تان سین اسی ملک میں تو پیدا ہوا تھا۔

اس میں شک نہیں کہ ہمارے تعلقات کتوں سے ذرا کشیدہ ہی رہے ہیں۔ لیکن ہم سے قسم لے لیجیئے جو ایسے موقع پر ہم نے کبھی سیتا گرہ سے منہ موڑا ہو۔ شاید آپ اس کو تعلّی سمجھیں لیکن خدا شاہد ہے کہ آج تک کبھی کسی کتے پر ہاتھ اُٹھ ہی نہ سکا۔ اکثر دوستوں نے صلاح دی کہ رات کے وقت لاٹھی چھڑی ضرور ہاتھ میں رکھنی چاہیئے کہ دافع بلیات ہے لیکن ہم کسی سے خواہ مخواہ عداوت پیدا نہیں کرنا چاہتے۔ کتے کے بھونکتے ہی ہماری طبعی شرافت ہم پر اس درجہ غلبہ پا جاتی ہے کہ آپ اگر ہمیں اس وقت دیکھیں تو یقیناً یہی سمجھیں گے کہ ہم بزدل ہیں۔ شاید آپ اس وقت یہ بھی اندازہ لگا لیں کہ ہمارا گلا خشک ہوا جاتا ہے۔ یہ البتہ ٹھیک ہے ایسے موقع پر کبھی گانے کی کوشش کروں تو کھرج کے سُروں کے سوا اور کچھ نہیں نکلتا۔ اگر آپ نے بھی ہم جیسی طبیعت پائی ہو تو آپ دیکھیں گے کہ ایسے موقع پر آیت الکرسی آپ کے ذہن سے اُتر جائے گی اس کی جگہ آپ شاید دعائے قنوت پڑھنے لگ جائیں۔

بعض اوقات ایسا اتفاق بھی ہوا ہے کہ رات کے دو بجےچھڑی گھماتے تھیٹر سے واپس آرہے ہیں اور ناٹک کے کسی نہ کسی گیت کی طرز ذہن میں بٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں چونکہ گیت کے الفاظ یاد نہیں اور نومشقی کا عالم بھی ہے اس ليے سیٹی پر اکتفا کی ہے کہ بےسرے بھی ہوگئے تو کوئی یہی سمجھے گا کہ انگریزی موسیقی ہے، اتنے میں ایک موڑ پر سے جو مڑے تو سامنے ایک بکری بندھی تھی۔ ذرا تصور ملاحظہ ہو آنکھوں نے اسے بھی کتا دیکھا، ایک تو کتا اور پھر بکری کی جسامت کا۔ گویا بہت ہی کتا۔ بس ہاتھ پاؤں پھول گئے چھڑی کی گردش دھیمی دھیمی ہوتے ہوتے ایک نہایت ہی نامعقول، زاوئیے پر ہوا میں کہیں ٹھہر گئی۔ سیٹی کی موسیقی بھر تھرتھرا کر خاموش ہوگئی لیکن کیا مجال جو ہماری تھوتھنی کی مخروطی شکل میں ذرا بھی فرق آیا ہو۔گویا ایک بےآواز لَے ابھی تک نکل رہی ہے ۔طب کا مسئلہ ہے کہ ایسے موقعوں پر اگر سردی کے موسم میں بھی پسینہ آجائے تو کوئی مضائقہ نہیں بعد میں پھر سوکھ جاتا ہے۔

چونکہ ہم طبعاً ذرا محتاط ہیں۔ اس ليے آج تک کتے کے کانٹے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ یعنی کسی کتے نے آج تک ہم کو کبھی نہیں کاٹا اگر ایسا سانحہ کبھی پیش آیا ہوتا تو اس سرگزشت کی بجائے آج ہمارا مرثیہ چھپ رہا ہوتا۔ تاریخی مصرعہ دعائیہ ہوتا کہ "اس کتے کی مٹی سے بھی کتا گھاس پیدا ہو" لیکن۔۔۔
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے سگ رہ بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا

جب تک اس دنیا میں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مصُر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں اور پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ نرالے ہیں۔ یعنی ا یک تو متعدی مرض ہے اور پھر بچوں اور بوڑھوں سب ہی کو لاحق ہے۔ اگر کوئی بھاری بھرکم اسفندیار کتا کبھی کبھی اپنے رعب اور دبدبے کو قائم رکھنے کے ليے بھونک لے تو ہم بھی چاروناچار کہہ دیں کہ بھئی بھونک۔ (اگرچہ ایسے وقت میں اس کو زنجیر سے بندھا ہونا چاہئیے۔) لیکن یہ کم بخت دو روزہ، سہ روزہ، دو دو تین تین تولے کے پلے بھی تو بھونکنے سے باز نہیں آتے۔ باریک آواز ذراسا پھیپھڑا اس پر بھی اتنا زور لگا کر بھونکتے ہیں کہ آواز کی لرزش دُم تک پہنچتی ہے اور پھر بھونکتے ہیں چلتی موٹر کے سامنےآکر گویا اسے روک ہی تو لیں گے۔ اب اگر یہ خاکسار موٹر چلا رہا ہوتو قطعاً ہاتھ کام کرنے سے انکار کردیں لیکن ہر کوئی یوں ان کی جان بخشی تھوڑا ہی کردے گا؟

کتوں کے بھونکنے پر مجھے سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ ان کی آواز سوچنے کے تمام قویٰ معطل کردیتی ہے خصوصاً جب کسی دکان کے تختے کے نیچے سے ان کا ایک پورا خفیہ جلسہ باہر سڑک پر آکر تبلیغ کا کام شروع کردے تو آپ ہی کہیے ہوش ٹھکانے رہ سکتے ہیں؟ ہر ایک کی طرف باری باری متوجہ ہونا پڑتا ہے۔ کچھ ان کا شور، کچھ ہماری صدائے احتجاج (زیرلب) بےڈھنگی حرکات وسکنات (حرکات ان کی، سکنات ہماری۔) اس ہنگامے میں دماغ بھلا خاک کام کرسکتا ہے؟ اگرچہ یہ مجھے بھی نہیں معلوم کہ اگر ایسے موقع پر دماغ کام کرے بھی تو کیا تیر مارلے گا؟ بہرصورت کتوں کی یہ پرلےدرجے کی ناانصافی میرے نزدیک ہمیشہ قابل نفرین رہی ہے۔ اگر ان کا ایک نمائندہ شرافت کے ساتھ ہم سے آکر کہہ دے کہ عالی جناب، سڑک بند ہے تو خدا کی قسم ہم بغیر چون وچرا کئے واپس لوٹ جائیں اور یہ کوئی نئی بات نہیں۔ ہم نے کتوں کی درخواست پر کئی راتیں سڑکیں ناپنے میں گزاردی ہیں لیکن پوری مجلس کا یوں متفقہ و متحدہ طور پر سینہ زوری کرنا ایک کمینہ حرکت ہے (قارئین کرام کی خدمت میں عرض ہے کہ اگر ان کا کوئی عزیزومحترم کتا کمرے میں موجود ہو تو یہ مضمون بلند آواز سے نہ پڑھا جائے مجھے کسی کی دل شکنی مطلوب نہیں۔)

خدا نے ہر قوم میں نیک افراد بھی پیدا کئے ہیں۔ کتے اس کے کلئے سے مستثنیٰٰ نہیں۔ آپ نے خدا ترس کتا بھی ضرور دیکھا ہوگا، اس کے جسم میں تپّسیا کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں، جب چلتا ہے تو اس مسکینی اور عجز سے گویا بارگناہ کا احساس آنکھ نہیں اٹھانے دیتا۔ دم اکثر پیٹ کے ساتھ لگی ہوتی ہے۔ سڑک کے بیچوں بیچ غوروفکر کے ليے لیٹ جاتا ہے اور آنکھیں بندکرلیتا ہے۔ شکل بالکل فلاسفروں کی سی اور شجرہ دیوجانس کلبی سے ملتا ہے۔ کسی گاڑی والے نے متواتر بگل بجایا، گاڑی کے مختلف حصوں کو کھٹکھٹایا، لوگوں سے کہلوایا، خود دس بارہ دفعہ آوازیں دیں تو آپ نے سرکو وہیں زمین پر رکھے سرخ مخمور آنکھوں کو کھولا ۔ صورت حال کو ایک نظر دیکھا، اور پھر آنکھیں بند کرلیں۔ کسی نے ایک چابک لگا دیاتو آپ نہایت اطمینان کے ساتھ وہاں سے اُٹھ کر ایک گز پرے لے جالیٹے اور خیالات کے سلسلے کو جہاں سے وہ ٹوٹ گیا تھا وہیں سے پھر شروع کردیا۔ کسی بائیسکل والے نے گھنٹی بجائی، تو لیٹے لیٹے ہی سمجھ گئے کہ بائیسکل ہے۔ ایسی چھچھوری چیزوں کے ليے وہ راستہ چھوڑ دینا فقیری کی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔

رات کے وقت یہی کتا اپنی خشک، پتلی سی دم کو تابحد امکان سڑک پھیلا کر رکھتا ہے۔ اس سے محض خدا کے برگزیدہ بندوں کی آزمائش مقصود ہوتی ہے۔ جہاں آپ نے غلطی سے اس پر پاؤں رکھ دیا، انہوں نے غیظ وغیب کے لہجہ میں آپ سے پرشش شروع ےکردی، "بچہ فقیروں کو چھیڑتا ہے، نظر نہیں آتا، ہم سادھو لوگ یہاں بیٹھے ہیں"۔ بس اس فقیر کی بددعا سے سے اسی وقت رعشہ شروع ہوجاتا ہے۔ بعد میں کئی راتوں تک یہی خواب نظر آتے رہتے ہیں کہ بےشمار کتے ٹانگوں سے لپٹے ہوئے ہیں اور جانے نہیں دیتے۔ آنکھ کھلتی ہے تو پاؤں چارپائی کی ادوان میں پھنسے ہوتے ہیں۔

اگر خدا مجھے کچھ عرصے کے ليے اعلیٰ قسم کے بھونکنے اور کاٹنے کی طاقت عطا فرمائے، تو جنون انتقام میرے پاس کافی مقدار میں ہے۔ رفتہ رفتہ سب کتے علاج کے ليے کسولی پہنچ جائیں۔ ا یک شعر ہے:
عرفی تو میندیش زغو غائے رقیباں
آواز سگاں کم نہ کند رزق گدارا

یہی وہ خلاف فطرت شاعری ہے، جو ایشیا کے ليے باعث ننگ ہے، انگریزی میں ایک مثل ہے، کہ "بھونکتےہوئے کتے کاٹا نہیں کرتے" یہ بجا سہی۔ لیکن کون جانتا ہے، کہ ایک بھونکتا ہوا کتا کب بھونکنا بند کردے، اور کاٹنا شروع کردے!
* * *


اہل سنت والجماعت کا مختصر تعارف


اہل سنت والجماعت کا مختصر تعارف
امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ (م 150 ھ)
امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ ( م 189 ھ)
امام شافعی رحمۃ اﷲ علیہ (م 204 ھ)
امام احمد بن حنبل رحمۃ اﷲ علیہ (م 241 ھ)

ان ائمہ کرام نے اپنی خداد داد علمی و فکری صلاحیتوں اور مجتہدانہ بصیرت کی بناء پر اپنے اپنے دور میں حسب ضرورت قرآن و حدیث سے مسائل فقہ مرتب کئے، یوں ان ائمہ کے زیر اثر چار فقہی مکاتب فکر وجود میں آئے۔
امام ابوحنیفہ اسلامی عالم تھے جن کی وجہ شہرت احادیث رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو اکٹھا اور تدوین دینے کی وجہ سے ہے۔ وہ لوگ جو اس مجموعہ حدیث کو ہی کامل مانتے ہیں حنفی کہلاتے ہیں اور ابوحنیفہ اسطرح اس فقہ حنفی کے بانی امام سمجھے جاتے ہیں۔
ابتدائی زندگی
آپ کا نام نعمان بن ثابت بن زوطا اور کنیت ابوحنیفہ تھی۔ بالعموم امام اعظم کے لقب سے یاد کیے جاتے ہیں۔ آپ تمام ائمہ کے مقابلے میں سب سے بڑے مقام و مرتبے پر فائز ہیں۔ اسلامی فقہ میں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ کا پایہ بہت بلند ہے۔ آپ نسلاً عجمی تھے۔ آپ کی پیدائش کوفہ میں 80ہجری بمطابق 699ء میں ہوئی سن وفات 150ہجری ہے۔ ابتدائی ذوق والد ماجد کے تتبع میں تجارت تھا۔ لیکن اللہ نے ان سے دین کی خدمت کا کام لینا تھا، لٰہذا تجارت کا شغل اختیار کرنے سے پہلے آپ اپنی تعلیم کی طرف متوجہ ہوئے۔ آپ نے بیس سال کی عمر میں اعلٰی علوم کی تحصیل کی ابتدا کی۔
آپ نہایت ذہین اور قوی حافظہ کے مالک تھے۔ آپ کا زہد و تقویٰ فہم و فراست اور حکمت و دانائی بہت مشہور تھی۔ آپ نے اپنی عمر مبارک میں 7 ہزار مرتبہ ختم قرآن کیا۔ 45 سال تک ایک وضو سے پانچوں نمازیں پڑھیں، رات کے دو نفلوں میں پورا قرآن حکیم ختم کرنے والے امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ دن کو علم پھیلاتے اور رات کو عبادت کرتے، ان کی حیات مبارکہ کے لاتعداد گوشے ہیں۔ ائمہ حدیث آپ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک طرف آپ علم کے سمندر ہیں اور دوسری طرف زہد و تقویٰ اور طہارت کے پہاڑ ہیں۔
آپ کے سفر
امام اعظم نے علم حدیث کے حصول کے لیے تین مقامات کا بطورِ خاص سفر کیا۔ آپ نے علم حدیث سب سے پہلے کوفہ میں حاصل کیا کیونکہ آپ کوفہ کے رہنے والے تھے اور کوفہ علم حدیث کا بہت بڑا مرکز تھا۔ گویا آپ علم حدیث کے گھر میں پیدا ہوئے، وہیں پڑھا، کوفہ کے سب سے بڑے علم کے وارث امام اعظم خود بنے۔ دوسرا مقام حرمین شریفین کا تھا۔ جہاں سے آپ نے احادیث اخذ کیں اور تیسرا مقام بصرہ تھا۔ امام ابو حنیفہ نے تقریبًا 4 ہزار اساتذہ سے علم حاصل کیا۔
اساتذہ
علم الادب، علم الانساب اور علم الکلام کی تحصیل کے بعد علم فقہ کے لیے امام حماد کے حلقہ درس سے فیض یاب ہوئے۔ آپ علم فقيه كےعالم هين .آپ کے شیوخ و اساتذہ کی تعداد چار ہزار بتائی جاتی ہے۔ جن سے وہ وقتاً فوقتاً اکتساب علم کرتے رہے۔ امام محمد باقر اور امام جعفر صادق کی شاگردی کا فخر بھی انہیں حاصل هے.
درس و تدریس
آپ نے تحصیل علم کے بعد جب درس و تدریس کے سلسلہ کا آغاز کیا تو آپ کے حلقہ درس میں زبردست اژدھام ہوتا اور حاضرین میں اکثریت اد دور کے جید صاحبان علم کی ہوتی۔ علامہ کروری نے آپ کے خاص تلامذہ میں آٹھ سو فقہا محدثین اور صوفیا و مشائخ شمار کیا ہے۔ یہ ان ہزار ہا انسانوں کے علاوہ تھے۔ جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے رہتے تھے۔ آپ نے فقہ حنفیہ کی صورت میں اسلام کی قانونی و دستوری جامعیت کی لاجواب شہادت مہیا کی اور اس مدت میں جو مسائل مدون کیے ان کی تعداد بارہ لاکھ ستر ہزار سے زائد ہے۔ آپ کی تالیف پر اجماع ہے۔ اور صحابہ سے نقل روایت بھی ثابت ہے۔ آپ شریعت کے ستون تھے۔
مورخ خطیب بغدادی نے امام کے پوتے اسماعیل سے روایت کیا ہے کہ ’’میں اسماعیل بن حماد بن نعمان بن ثابت بن مرزبان ہوں ہم لوگ نسلاً فارس سے ہیں۔‘‘ امام صاحب کے دادا ثابت بچپن میں حضرت علی علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے انہوں نے ان کے خاندان کے حق میں دعائے خیر کی تھی۔ ’’ہمیں کو امید ہے۔ وہ دعا بے اثر نہیں رہی۔‘‘ تجارت ان کا ذریعہ معاش تھا۔ تجارت سے ہی رزق حلال کماتے دولت کی کمی نہ تھی۔ لیکن ان کی دولت و ثروت کا فائدہ طلبا اور حاجت مندوں ہی کو پہنچتا۔ فروخت کیے جانے والے کپڑے کے محاسن اور عیوب آپ برابر بیان کرتے اور خرابی کو کبھی نہ چھپاتے اپنے شاگردوں کی اکثر مالی امداد کرتے۔
تلامذہ
حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ کے ایک ہزار کے قریب شاگرد تھے جن میں چالیس افراد بہت ہی جلیل المرتبت تھے اور وہ درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے۔ وہ آپ کے مشیرِ خاص بھی تھے۔ ان میں سے چند کے نام یہ ہیں :
امام ابو یوسف رحمۃ اﷲ علیہ
امام محمد بن حسن شیبانی رحمۃ اﷲ علیہ
امام حماد بن ابی حنیفہ رحمۃ اﷲ علیہ
امام زفر بن ہذیل رحمۃ اﷲ علیہ
امام عبد اﷲ بن مبارک رحمۃ اﷲ علیہ
امام وکیع بن جراح رحمۃ اﷲ علیہ
امام داؤد بن نصیررحمۃ اﷲ علیہ
اہم تصانیف
آپ کی چند مشہور کتب درج ذیل ہیں :
الفقه الأکبر
الفقه الأبسط
العالم والمتعلم
رسالة الإمام أبي حنيفة إلی عثمان البتی
وصية الامام أبي حنيفة
المقصود فی علم التصریف کتاب الوصیۃ لجمیع الامۃ الوصیۃ لعثمان السبتی کتاب الوصیۃ لابی یوسف الوصیۃ لاصحابہ الکبار الرسالہ الی نوح بن مریم
اور ان کی احادیث میں تصانیف کی تعداد 27کے قریب ہیں
امام اعظم اپنا طریق اجتہاد و استنباط یوں بیان کرتے ہیں:
’’میں سب سے پہلے کسی مسئلے کا حکم کتاب اﷲ سے اخذ کرتا ہوں، پھر اگر وہاں وہ مسئلہ نہ پاؤں تو سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے لے لیتا ہوں، جب وہاں بھی نہ پاؤں تو صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے اقوال میں سے کسی کا قول مان لیتا ہوں اور ان کا قول چھوڑ کر دوسروں کا قول نہیں لیتا اور جب معاملہ ابراہیم شعبی، ابن سیرین اور عطاء پر آجائے تو یہ لوگ بھی مجتہد تھے اور اس وقت میں بھی ان لوگوں کی طرح اجتہاد کرتا ہوں۔‘‘
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لیے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
فقہ حنفی کی اشاعت و خدمت سب سے زیادہ ان کے شاگردوں قاضی ابویوسف اور امام محمد بن حسن شیبانی نے کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
فقہ حنفی کی تدوین و ترویج
امام ابوحنیفہ اور ان کے شاگردوں امام قاضی ابو یوسف اور امام محمد بن الحسن الشیبانی نے حنفی فقہ کی باضابطہ تدوین کی۔ قاضی ابو یوسف کو ہارون نے مملکت کا قاضی القضاۃ بنا دیا تھا۔ اس لیے ان کی وجہ سے فقہ حنفی کے پیروکاروں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔
آپ کے اجتہادی مسائل تقریبًا بارہ سو سال سے تمام اسلامی ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ اس لئے بڑی بڑی عظیم اسلامی سلطنتوں میں آپ ہی کے مسائل، قانون سلطنت تھے اور آج بھی اسلامی دنیا کا بیشتر حصہ آپ ہی کے فقہی مذہب کا پیرو کار ہے۔
عباسی خلفا کے عہد میں سرکاری فقہ حنفی تھی۔ یہ فقہ مشرقی ملکوں بالخصوص غیر عربوں میں زیادہ مقبول ہوئی۔ عثمانی ترک بھی حنفی تھے۔ بخارا، خراسان، اور بغداد ان کے خاص مرکز تھے۔
امام طحاوی رحمه الله نے بسند متصل نقل کیا ہے کہ اسد بن فرات نے کہا کہ امام ابو حنیفہ رحمه الله کے ہمنشیں جنہوں نے فقہ کو مدون کیا چالیس [۴۰] آدمی تھے - ان میں سے صف اول کے دس [۱۰] میں سے ، امام زفر رحمه الله ، داؤد طائی رحمه الله ، اسد بن عمرو رحمه الله ، یوسف بن خالد ستمی رحمه الله اور یحیی بن زکریا بن ابی زائدہ ہیں اور یہ آخرالذکر تیس [۳۰] سال تک فرائض کتابت سر انجام دیتے رہے
حسن التقاضی ص ۱۲ مناقب کردی ص ۱۱۵۷
بقول خطیب ان میں سے یہ حضرات بھی ہیں - عافیہ ازدی رحمه الله ، قاسم بن معن رحمه الله ، علی بن مسہر رحمه الله ، حبان اور مندل رحمهم الله تعالی
ردلمختار میں بحوالہ طحطحاوی رحمه الله لکھا ہے کہ فقہ کے جمع کرتے وقت ایک ہزار [۱۰۰۰]عالم امام صاحب کے ساتھ تھے - جن میں چالیس شخص درجۂ اجتہاد کو پہنچے ہوئے تھے - اتنے علماء میں ہر مسئلہ کی تحقیق ہوتی تھی - اور سب کے اتفاق سے جب مسئلہ طے ہوجاتا تو اس وقت کتاب میں لکھا جاتا
انوارالباری تذکرۃالمحدثین ص ۷۱
مسند خوارزمی میں ہے کہ امام صاحب جس وقت اپنے استاد امام حماد کی جگہ مسجد کوفہ میں مسند درس پر رونق افروز ہوئے تو ایک ہزار [۱۰۰۰] شاگرد آپ کے پاس جمع ہوگئے جن میں سے چالیس [۴۰] ایسے محدثین اور فقہاء تھے جن کو اجتہاد کا درجہ حاصل تھا
انوارالباری تذکرۃالمحدثین ص ۷۰
قال الطحاوی کتب الی ابن ابی ثور یحدثنی عن سلیمان بن عمران حدثنی اسد بن الفرات قال کان اصحاب ابی حنیفة الذین دونوا الکتب اربعین رجلا فکان فی عشرۃ المتقدمین ابو یوسف و زفر و داؤد الطائی و اسد بن عمرو و یوسف بن خالد السمتی و یحیی بن زکریا بن ابی زائدۃ و کان یکتب لهم ثلاثین سنة
الجواہر المضیۂ ج ۲ ص ۲۱۲
ترجمہ :: امام طحاوی رحمه الله نے اپنی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ اصحاب امام میں سے چالیس آدمی ہیں جنہوں نے کتابیں مدون کیں، پہلے دس میں ابو یوسف ، زفر ، داؤد الطائی ، اسد بن عمرو ؟ یوسف بن خالد اور یحیی بن زکریا تھے
اور دوسری روایت میں ہے
"وکان اصحاب ابی حنیفة الذی دونوا معه الکتب اربعین رجلا کبراء اکبرأ"
حسن التقاضی ص ۱۲
یعنی امام صاحب نے چالیس [۴۰] بڑے بڑے ساتھیوں کو ساتھ ملاکر [فقہ] کی کتابوں کو مدون کرایا
اراکین مجلس فقہ کی تفصیل
نمبر ۰۱ -امام زفر بن ھذیل [م۱۵۸ھ]
نمبر ۰۲ -امام مالک بن مغول [م۱۵۹ھ]
نمبر ۰۳ -امام داؤد طائی [م۱۶۰ھ]
نمبر ۰۴ -امام مندل بن علی [م۱۶۸ھ]
نمبر ۰۵ -امام نصر بن عبدالکریم [م۱۶۹ھ]
نمبر ۰۶ -امام عمرو بن میمون [م۱۷۱ھ]
نمبر ۰۷ -امام حبان بن علی [م۱۷۲ھ]
نمبر ۰۸ -امام ابو عصمہ نوح بن مریم [م۱۷۳ھ]
نمبر ۰۹ -امام زہیر بن معاویہ [م۱۷۳ھ]
نمبر ۱۰ -امام قاسم بن معن [م۱۷۵ھ]
نمبر ۱۱ -امام حماد بن امام اعظم [م۱۷۶ھ]
نمبر ۱۲ -امام ہیاج بن یسطام [م۱۷۷ھ]
نمبر ۱۳ -امام شریک بن عبدالله [م۱۷۸ھ]
نمبر ۱۴ -امام عافیہ بن یزید [م۱۸۰ھ]
نمبر ۱۵ -امام عبدالله بن مبارک [م۱۸۱ھ]
نمبر ۱۶ -امام ابو یوسف [م۱۸۲ھ]
نمبر ۱۷ -امام محمد بن نوح [م۱۸۲ھ]
نمبر ۱۸ -امام ہشیم بن بشیر سلمی [م۱۸۳ھ]
نمبر ۱۹ -امام ابو سعید بن زکریا بن ابی زائدہ [م۱۸۴ھ]
نمبر ۲۰ -امام فضیل بن غیاض [م۱۸۷ھ]
نمبر ۲۱ -امام اسد بن عمرو [م۱۸۸ھ]
نمبر ۲۲ -امام محمد بن حسن شیبانی [م۱۸۹ھ]
نمبر ۲۳ -امام علی بن مسہر [م۱۸۹ھ]
نمبر ۲۴ -امام یوسف بن خالد سمتی [م۱۸۹ھ]
نمبر ۲۵ -امام عبدالله بن ادریس کوفی [م۱۹۲ھ]
نمبر ۲۶ -امام فضل بن موسی سینانی [م۱۹۲ھ] –
نمبر ۲۷ -امام علی بن ظبیان [م۱۹۲ھ]
نمبر ۲۸ -امام حفض بن غیاث [م۱۹۴ھ]
نمبر ۲۹ -امام ہشام بن یوسف [م۱۹۳ھ]
نمبر ۳۰ -امام یحیی بن سعید القطان [م۱۹۸ھ]
نمبر ۳۱ -امام شعیب بن اسحاق [۱۹۸ھ]
نمبر ۳۲ -امام ابو حفض بن عبدالرحمن [م۱۹۹ھ]
نمبر ۳۳ -امام ابو مطیع بلخی [م۱۹۹ھ]
نمبر ۳۴ -امام خالد بن سلیمان [م۱۹۹ھ]
نمبر ۳۵ -امام عبدالحمید بن عبدالرحمن کوفی [م۲۰۳ھ]
نمبر ۳۶ -امام حسن بن زیاد [م۲۰۴ھ]
نمبر ۳۷ -امام ابو عاصم نبیل [م۲۱۲ھ]
نمبر ۳۸ -امام مکی بن ابراہیم [م۲۱۵ھ]
نمبر ۳۹ -امام حماد بن دلیل [م۲۱۵ھ]
امانی الاحبار و الجواہر المضیہ
بزم احناف ص ۷۴ تا ۷۷
آج کے دور میں
اس وقت بھی پاکستان، بھارت، افغانستان، چینی ترکستان، وسطی ایشیا اور ترکی وغیرہ میں مسلمانوں کی غالب اکثریت حنفی فقہ پر کاربند ہے۔
امام مالک
مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 197ھ) مسلمانوں میں "امام مالک" اور "شیخ الاسلام" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علماء میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی ، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے ، نے ایک بار کہا کہ "علماء میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام (موطا) تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔
وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انہیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
فقہ مالکی
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام مالک کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان مالکی کہلاتے ہیں۔
موطاء امام مالک
موطاء امام مالکحدیث کی ایک ابتدائی کتاب ہے جو مشہور سنی عالم دین مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 197ھ) نے تصنیف کی۔ انہی کی وجہ سے مسلمانوں کا طبقہ فقہ مالکی کہلاتا ہے جو اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
موطا کےمصنف کا پورانام یہ ہے: ابوعبداللہ مالک بن انس بن ابی عامرالاصبحی الحمیری ہے۔(۱) اپ کی تاریخ ولادت میں ۹۰ھ سے ۹۷ھ تک کے مختلف اقوال ہیں۔ امام ذہبی نے یحیی بن کثیرکے قول کو اصح قراردیاہے جس کے مطابق اپ کی ولادت ۹۳ھ میں ہوءی ہے۔ جبکہ اپ کی وفات ربیع؁ الاول؁۱۷۹ھ کومدنیہ منورہ میں ہوءی امام مالک فقہ اورحدیث مین اھل حجاز بلکہ پوری ملت اسلامیہ کے امام ہیں۔ اپ کی کتاب "الموطا" حدیث کے متداول اور معروف مجموعوں میں سب سے قدیم ترین مجموعہ ہے۔موطاسے پہلے بھی احادیث کے کی مجموعے تیار ہوءے اور ان میں سے کيی ایک اج موجود بھی ہیں لیکن وہ مقبول اورمتداول نہیں ہیں۔ موطاکے لفظی معنی ہے، وہ راستہ جس کو لوگوں نے پےدرپے چل کر اتناہموارکردیاہو کہ بعد میں انے والوں کے لیےاسپرچلنااسان ہوگیاہو۔ جمہور علماء نے موطاکو طبقات کتب حدیث میں طبقہ اولی میں شمار کیاہے امام شافعی فرماتے ہیں"ماعلی ظہرالارض کتاب بعد کتاب اللہ اصح من کتاب مالک" کہ میں نے روءے زمین پر موطاامام مالک سے زیادہ کوءی صحیح کتاب (کتاب اللہ کے بعد)نہیں دیکھی ۔ حضرت شاہ ولی اللہ موطاکے بارے میں لکھتے ہیں" فقہ میں موطا امام مالک سےزیادہ کوءی مضبوط کتاب موجود نہیں ہے" موطا میں احادیث کی تعداد کے بارے میں کءی روایات ہیں، اور اس اختلاف کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ امام مالک نے اپنی روایات کی تہذیب اورتنقیح برابر جاری رکھی لہذا مختلف اوفات میں احادیث کی تعداد مختلف رہی۔
امام مالک
مالک بن انس بن مالک بن عمر (93ھ - 197ھ) مسلمانوں میں "امام مالک" اور "شیخ الاسلام" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ اہل سنت کی نظر میں وہ فقہ کے مستند ترین علماء میں سے ایک ہیں۔ امام شافعی ، جو نو برس تک امام مالک کے شاگرد رہے اور خود بھی ایک بہت بڑے عالم تھے ، نے ایک بار کہا کہ "علماء میں مالک ایک دمکتے ہوئے ستارے کی مانند ہیں"۔ فقہ مالکی اہل سنت کے ان چار مسالک میں سے ایک ہے جس کے پیروان آج بھی بڑی تعداد میں ہیں۔
آپ کے زمانہ میں بغداد میں عباسی خلفاء حکمران تھے۔ جس زمانہ میں امام ابو حنیفہ کوفہ میں تھے قریب قریب اسی زمانہ میں امام مالک مدینہ منورہ میں تھے۔ مدینہ شریف میں رہنے کی وجہ سے اپنے زمانے میں حدیث کے سب سے بڑے عالم تھے۔ انہوں نے حدیث کا ایک مجموعہ تالیف کیا جس کا نام (موطا) تھا۔ امام مالک عشق رسول اور حب اہل بیت میں اس حد تک سرشار تھے کہ ساری عمر مدینہ منورہ میں بطریق احتیاط و ادب ننگے پاؤں پھرتے گزار دی ۔
وہ بڑے دیانتدار اصول کے پکے اور مروت کرنے والے تھے۔ جو کوئی بھی انہیں تحفہ یا ہدیہ پیش کرتا وہ اسے لوگوں میں بانٹ دیتے۔ حق کی حمایت میں قید و بند اور کوڑے کھانے سے بھی دریغ نہ کیا۔ مسئلہ خلق قرآن میں مامون الرشید اور اس کے جانشین نے آپ پر بے پناہ تشدد کیا لیکن آپ نے اپنی رائے تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔ ہارون الرشید نے ان سے درخواست کی کہ ان کے دونوں بیٹوں امین و مامون کو محل میں آکر حدیث پڑھا دیں مگر آپ نے صاف انکار کر دیا۔ مجبوراَ ہارون کو اپنے بیٹوں کو ان کے ہاں پڑھنے کے لیے بھیجنا پڑا۔ فقہ مالکی کا زیادہ رواج مغربی افریقہ اور اندلس میں ہوا۔ امام مالک کو امام ابو حنیفہ اور امام جعفر صادق سے بھی علم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا۔
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام مالک کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان مالکی کہلاتے ہیں۔
امام شافعی
محمد بن ادریس بن العباس بن عثمان بن شافع بن السائب بن عبید بن عبد زید ابن ھاشم بن المطلب بن عبد مناف القرشی۔ یہ سید المرسلین سیدنا محمد ابن عبداللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ " عبد مناف " کے ذریعے ملتے ہیں. شافعی قریشی ہیں اور والدہ کی طرف سے (مشہور قول کی بنا پر کہ) آپ کی والدہ ایک شریف قبیلہ الأزد سے تھیں جن کا نام السيدة فاطمہ ( أم حبيبہ ) الأزديہ تھا، یہ قبیلہ یمن کہ السعید سے تعلق رکھتا تھا.
حالات زندگی
آپ ماہ رجب سال 150ھ بمطابق 768ء میں شہر غزہ ، فلسطین میں پیدا ہوئے۔ آپکے والد مکہ مکرمہ سے مسلمین کے ساتھ ہجرت کر کے فلسطین آگئے تھے ، اسکے بعد غزہ و عسقلان میں بھی رہے۔ امام شافعی کی ولادت کے بعد کچھ دنوں ہی میں انکے والد کا انتقال ہوگیا۔ انکی والدہ انکو واپس مکہ لے آئیں اور وہیں انکی علمی تربیت ہوئی۔ آپ امام مالک کے شاگرد بھی رہے ، اور آپ کی عمر کا بیشتر حصہ مکہ ، مدینہ ، بغداد اور مصر میں گزرا اور آخرکار مصر ہی میں وفات پائی۔ آپ اپنے زمانہ کے بہت بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ عربی زبان پر بڑی قدرت حاصل تھی۔ اور اعلٰی درجہ کے انشاپرداز تھے۔ آپ کی دو کتب (کتاب الام) اور (الرسالہ) کو شہرت دوام حاصل ہوئی۔ صدیوں تک مصر عرب ، شام ، عراق ، اور ایران میں آپ کی قابلیت کا چرچہ رہا۔
تصانیف
الرسالہ القدیمہ
الرسالہ الجدیدۃ
اختلاف الحدیث
جماع العلم
ابطال الاستحسان
احکام القرآن
بیاض الغرض
صفہ الامر والنھی
اختلاف العراقیین
فضائل قریش
کتاب: الام
کتاب: السُنَن
کتاب: المبسوط
المسند الشافعی
امام احمد بن حنبل
780ء کو پیدا ہوئے اور 855ء کو وفات پائی۔ اپنے دور کے بڑے عالم اور فقیہ تھے۔ آپ امام شافعی کے شاگرد ہیں۔ اپنے زمانہ کے مشہور علمائے حدیث میں آپ کا شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے (مسند) کے نام سے حدیث کی کتاب تالیف کی جس میں تقریباً چالیس ہزار احادیث ہیں۔ امام شافعی کی طرح امام احمد بن حنبل کی مالی حالت بھی کمزور تھی۔ لوگ انہیں بے شمار تحائف اور ہدیہ پیش کرتے لیکن آپ اپنے اوپر اس میں سے کچھ بھی نہ صرف کرتے سب کچھ بانٹ دیتے ۔
خلیفہ معتصم کی رائے سے اختلاف کی پاداش میں آپ نے کوڑے کھائے لیکن غلط بات کی طرف رجوع نہ کیا۔ آپ کوڑے کھا کھا کر بے ہوش ہو جاتے لیکن غلط بات کی تصدیق سے انکار کر دیتے۔ انہوں نے حق کی پاداش میں جس طرح صعوبتیں اٹھائیں اُس کی بنا پر اتنی ہردلعزیزی پائی کہ وہ لوگوں کے دلوں کے حکمران بن گئے۔ ان کے انتقال کے وقت آٹھ لاکھ سے زیادہ اشخاص بغداد میں جمع ہوئے اور نماز جنازہ پڑھی۔ عباسی خلافت کے آخری دور میں فقہ حنبلی کا بڑا زور تھا۔ پیران پیر شیخ عبد القادر جیلانی بھی حنبلی تھے۔ آج کل ان کے پیروکاروں کی تعداد گھٹ کر عرب کے علاقے نجد تک محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ حنبلی علماء میں ابن تیمیہ کا شمار صف اول کے لوگوں میں کیا جاتا ہے۔
آپ کی عمر کا ایک طویل حصہ جیل کی تنگ و تاریک کوٹھریوں میں بسر ہوا۔ پاؤں میں بیڑیاں پڑی رہتیں، طرح طرح کی اذیتیں دی جاتیں تاکہ آپ کسی طرح خلق قرآن کے قائل ہو جائیں لیکن وہ عزم و ایمان کا ہمالہ ایک انچ اپنے مقام سے نہ سرکا۔ حق پہ جیا اور حق پہ وفات پائی۔
حنبلی
شریعت اسلامی کی اصطلاح میں امام احمد بن محمد بن حنبل کی فقہ پر عمل کرنے والے مسلمان حنبلی کہلاتے ہیں۔اسلوب فقہ
حنابلہ فقہی معاملات میں قیاس یا رائے کو نہیں مانتے اور اپنی فقہ کی بنیاد زیادہ تر قرآن اور حدیث پر رکھتے ہیں۔ ان کے نزدیک حدیث کی دیگر کتب میں مسند احمد بن حنبل کو نمایاں مقام حاصل ہے۔
آج کے دور میں
دیگر اسلامی فقھوں کے تناسب سے اس وقت حنبلی فقہ کے مقلدین کی تعداد سب سے کم ہے۔ چودھویں صدی عیسوی تک ان کی تعداد کافی تھی اور شام و فلسطین کے علاقوں میں ان کا بہت زور تھا۔ امام ابن تیمیہ بھی فقہ حنبلی کے مقلد تھے۔ عثمانی ترکوں کی خلافت سے قبل ہر بڑے اسلامی شہر میں دیگر تینوں اسلامی فقھوں کے علاوہ حنبلی قاضی بھی مقرر کیے جاتے تھے مگر ترکوں نے یہ رسم ترک کر دی۔

Tricks and Tips